
مفاہمت کے بغیر
پہلی اور آخری بات موجودہ بحران کے ضمن میں یہ کہ مفاہمت کے بغیر اس سے نکلنا مشکل ہے۔ زور آزمائی کے ہم عادی ہیں‘ ماہر نہیں۔ اور اسی دھن میں ہم نے اداروں کی خود مختاری‘ عزت و احترام اور طے شدہ آئینی حیثیت تک کو دائو پر لگا رکھا ہے۔ سیاست میں زور صرف روایات‘ آئین اور قانون کا چلتا ہے مگر ہمارے سیاست باز جمہوریت کے ان سب ستونوں کو اپنے مقاصد کے لیے ٹیڑھا کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے ہی تو بحران پیدا نہیں ہوتے رہے۔ جس بری طرح اب سارا معاشرہ‘ ملک اور ریاست اپنی تاریخ کے تلخ اور طویل ترین بحران میں دھنس چکا ہے‘ اس سے نکلنے کا راستہ صرف مل بیٹھ کر مذاکرات کرنے سے ہی نکل سکتا ہے۔ اور عوام کے خیر خواہ اور جماعتی وفاداریوں سے بالا تر ہو کر سوچنے والوں کی رائے اور خواہش یہ ہے کہ تیرہ جماعتی اتحاد اور تحریک انصاف کچھ دانش مندی کا مظاہرہ کریں‘ قوم پر ترس کھائیں اور ایک دوسرے کو راستہ دینے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔ ملکی معیشت کا اس وقت کیا حال ہے‘ کسی سے آپ کو پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شہ سرخیوں پر ذرا غور فرمائیں اور بازار سے کوئی چیز خریدنے کی کوشش کریں تو روپے کی بے قدری آپ پر واضح ہو جائے گی۔ اس وقت عالمی اقتصادی بحران کے باوجود ہمارے ہمسایہ ممالک میں صنعتی ممالک سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے بنا رہے ہیں‘ ہماری طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ رہا۔ گزشتہ کئی برسوں سے غیرملکی کمپنیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ہمارا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی۔ سیاسی صورتحال اور طرزِ حکمرانی کی خرابیوں اور قانونی پیچیدگیوں کے پیش نظر آپ کسی بیرونی سرمایہ کار کو کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرے؟ بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ........
© Roznama Dunya


