
الیکشن آیا‘ نظریۂ ضرورت دفنایا
یہ ایک عصاب شکن بحث تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ قوم شکن نہیں بن سکی۔ آئین شکنی کے ذریعے اقتدار میں آنے والوں نے جمہوریت شکنی کے لیے سارا بارود‘ تمام گولے اور حرف و صوتِ لشکری استعمال کر ڈالے۔ مسئلہ صرف اتنا سا تھا کہ آئین کہتا ہے جب بھی قومی اسمبلی یا کوئی صوبائی اسمبلی تحلیل کی جائے گی تو اس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی گورنر نئے جنرل الیکشن کرانے کے لیے ایک تاریخ مقرر کرے گا۔ عارضی کابینہ اور عارضی چیف منسٹر یا نگران پرائم منسٹر آئین کے مطابق اِس سمت کا تیسرا قدم ہیں۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے پنجاب اسمبلی توڑ ڈالی‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار۔ اتحادی چیف منسٹر پرویز الٰہی‘ جو اب پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں‘ انہوں نے سمری بھجوائی مگر گورنر پنجاب نے اسمبلی توڑنے سے انکار کر دیا۔ آئین میں اس کا علاج موجود ہے۔ گورنر اسمبلی توڑے نہ توڑے‘ 48گھنٹے کے بعد چیف منسٹر کی اسمبلی توڑنے والی سمری By Operation of Constitutionخوبخود منظور ہو جائے گی۔ پھر ظاہر ہے‘ اسمبلی ختم ہو جائے گی۔
پنجاب میں گورنر کے آئین کی ماتحتی کے انکار کے بعد اسی آئینی راستے پر عمل ہوا۔ ایک ہفتے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طے شدہ حکمت عملی کے عین مطابق خیبر پختونخوا میں بھی عمران خان نے اپنی حکومت توڑ کر خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر ڈالی۔ خیبر پختونخوا کے گورنر نے گورنر پنجاب سے ایک قدم آگے بڑھ کر آئین پامال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسمبلی توڑنے کی سمری منظور ہونے کے بعد‘ مگر صوبہ خیبر پختونخوا میں نئے جنرل الیکشن نوے روز کے اندر اندر کرانے کی تاریخ دینے سے انکار کر ڈالا۔ موصوف‘ جس کا مالٹے اور کیلے کی شان میں دیا گیا لیکچر سوشل میڈیا پر نا ختم ہونے والے قہقہوں........
© Roznama Dunya


