
خدارا! ملک پر رحم کھائیں
نظریات کبھی بھی کھڑے پانی کی مانند نہیں ہوتے۔ اگر نظریا ت بھی پانی کی طرح ساکت و جامد ہو جائیں تو ان میں بھی سڑانڈ پھیل جائے، سچ اور جھوٹ کا فرق مٹ جائے اور حقیقت کی تہہ میں چھپے منظر کبھی بھی نظر نہ آئیں کیونکہ کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ کی نہیں شعور کی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں پنجاب کی سیاست بھی ایسا ہی منظر پیش کر رہی ہے۔ ہر طرف کنفیوژن اور دھندلا پن چھایا ہوا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون کیا چاہتا ہے؟ کس کے کیا عزائم ہیں اور کیوں؟
پنجاب میں گزشتہ آٹھ ماہ سے تماشا لگا ہوا ہے۔ بارہ کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اقتدار کی لڑائی میں تین وزرائے اعلیٰ قربان ہو چکے ہیں اور کون جانے آئندہ آنے والے کے ساتھ کیا ہوگا؟ انتہائی دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس سیاسی ناچاقی میں سب سے زیادہ برا حال آئین کا ہوا ہے اور وہ طبقہ جو آئین کو بالاتر سمجھتا تھا‘ اسے ایسے ایسے منظر دیکھنے کو ملے کہ جن کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت آئین کے مطابق کام کر رہی ہو اور ایک دوسرے سے متصادم بھی ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سچ اور جھوٹ کی ایک ہی دلیل ہو؟ حق بھی آئین کی بات کرے اور باطل بھی آئین کا حوالہ دے۔ یہ بات عقل، فہم اور دانش کے خلاف ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں، کیا صحیح و غلط کی منطق ایک جیسی منطق ہو سکتی ہے؟ کیا دائیں اور بائیں کی دلیل میں مماثلت ممکن ہے؟ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی اور اجلاس بلایا مگر سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کے اس فعل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ سپیکر نے اپنے خط میں لکھا کہ جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ گورنر نے جوابی وار کیا اور وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا‘ جس کے بعد چیف........
© Roznama Dunya


