
کاشت کاروں کی کون سنتا ہے؟
صنعت کاری بڑھے تو آبادیوں کا رخ شہروں کی طرف ہو جاتا ہے۔ تاریخی طور پر دنیا میں شہر اسی طرح آباد ہوتے رہے ہیں۔ اب صنعتی ممالک میں 70 سے 80فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ زراعت کی اہمیت تو ختم نہیں ہوئی مگر مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصہ کم رہ گیا۔ ہمارے ہاں بھی شہری آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ صنعتیں دھڑا دھڑ لگ رہی ہیں۔ اس میں مزید تیزی آئے گی اور زراعت کا قومی پیداوار میں حصہ کم ہوتا چلا جائے گا۔ صنعتی ممالک میں زراعت نے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کی ہے۔ بہتر بیج دستیاب ہیں۔ پانی کی فراہمی اور بہتر استعمال کے طریقے ایجاد ہوئے۔ کیڑے مار ادویات اور کھادوں کا معیار قائم ہے۔ ہمارے اور اُن کے ہاں زراعت میں ایک نمایاں فرق زرعی زمین کی ملکیت کے حوالے سے ہے۔
صنعتی ممالک میں آہستہ آہستہ خاندانی زرعی فارمز معدوم ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ نئی نسلوں کا دیہات سے شہروں کی طرف رخ اور نئے پیشوں کی کشش ہے۔ چھوٹے فارموں سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا وہاں مشکل سے مشکل ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے زمین کی ملکیت بڑی زرعی کمپنیوں نے سنبھال لی۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو سوائے برطانیہ کے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا مگر امریکہ کے بارے میں جہاں زندگی کے دس سال گزارے‘ کچھ جانکاری رکھتا ہوں۔ وہاں بڑے بڑے خاندانی فارمز اب بھی موجود ہیں۔ چھوٹا کاشتکار بھی ہزاروں ایکڑ زمین رکھتا ہے۔ بڑی اجناس میں گندم‘ کپاس‘ مکئی اور سویا بین شامل ہیں۔ بارش کے پانی سے کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں نہری نظام ہے مگر بہت محدود پیمانے پر اور اس کا پانی کاشت کاروں کو مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ ہر ریاست میں موسم کے اپنے انداز ہیں۔ اسی کے مطابق فصلیں‘ پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔........
© Roznama Dunya


