
زندگی کی شاعری
میں شاعر تو نہیں ‘ کبھی تھا بھی نہیں؛ اگرچہ ہر پڑھے لکھے نوجوان کی طرح کسی زمانے میں طبع آزمائی کی تھی۔ کچھ یاد نہیں کیا کہا تھا‘ اور وہ کہاں رہ گیا۔ چندشعر ہی ہوں گے جو وقت کے گرد وغبار کی تہوں میں دب گئے۔ جوان دل کے خون کی موجیں کچھ اور ہوتی ہیں۔ وہ تو سب کچھ گزر گیا ‘ مگر زندگی کی موج در موج شاعری کے کرشمے ختم نہیں ہوتے۔ ایک شرط ضرور ہے کہ آپ دن‘ رات‘ ماہ و سال فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔ اگر ایسا نہیں کرپاتے تو زندگی میں شاعری کا عنصر مفقود ہوجائے گا۔ کچھ عرصہ گزر ا ‘ ایک پاکستانی نژاد پروفیسر امریکہ میں زندگی کھپا رہے تھے۔ اُن سے چند بار ملا تو اپنی بیاض کھول کر شاعری سناناشروع کردیتے۔ پاکستان میں چندماہ رہے تو اُنہوں نے بڑی بھاگ دوڑ کرکے احمد فرازؔ صاحب کو اپنے گھر مدعو کرلیا۔ یہ درویش بھی ان کے حلقۂ احباب میں تھا۔ احمد فراز صاحب کے ساتھ شام گزارنے کا موقع مل گیا۔حسب ِعادت پروفیسر صاحب نے بیاض نکالی اور کچھ اشعار پڑھے اور فراز صاحب سے داد وصول کرنے کی توقع میں کچھ وقفہ کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہوں نے رائے لینا چاہی ہوپر فراز صاحب خود ہی بول پڑے ''شاعری کا تعلق خون سے ہے‘‘۔ بات گہری تھی۔ یہ جذبہ جوانی میں پیدا ہوتا ہے۔ عمر کے آخری حصے میں شاعری کرنے کی کوشش یا خواہش ‘ بقول فرازؔ ‘ زندگی کی شاعری نہیں ہوسکتی۔ زندگی میں فطرت پسندی ہو اور اس کے مظاہر کا مشاہدہ نصیبوں میں ہوتو ایک ترتیب بنتی ہے۔ ایک ربط جڑتا ہے۔ زندگی کو مختلف پہلوئوں سے دیکھنے‘ جینے اور لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
زندگی میں ترتیب اور ربط ہر انسان خود پیدا کرنے کی صلاحیت تو رکھتاہے مگر سب اس عمل میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اگر آپ اس سے مراد بے کیف یکسانیت........
© Roznama Dunya


