
یہ تو نہیں چلے گا
حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آندھی اٹھی اور سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔ کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر نہیں رہی‘ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح اُڑ گیا۔ موسموں کی پیش گوئی کی مہارت تو نہیں مگر سن رکھا ہے کہ جب فضا میں جمود ہو‘ خلا ہو اور حدت بڑھ جائے تو طوفان کی آمد کا خطرہ ہوتا ہے۔ موسم گرما میں گھٹن بڑھتی ہے تو آسمان کا رنگ بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ طوفانی جھکڑ چلنے لگتے ہیں جو سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری بھی ہے۔
بندوبستی نظام کے پرزے اپنی جگہ سے سرک چکے لیکن جس عجلت اور تندی سے اسے جوڑا گیا تھا‘ نہ اس کی کوئی شکل نکلی نہ ہی وہ اس کام کے لیے موزوں تھے جو اگر کسی کے ذہن میں تھا۔ پہلے تو یہ سارے پرزے زنگ آلود تھے۔ کچھ پر میل کی اتنی تہیں جم چکی تھیں کہ دنیا کا کو ئی محلول ان کی صفائی نہیں کر سکتا تھا۔ ان پر رنگ کرکے شکل نکھارنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے ان کی فطرت کیسے چھپ سکتی تھی۔ گزشتہ سات ماہ سے ایک ہی آواز لگائی جارہی ہے کہ یہ وہی نظام ہے جسے آئین میں لکھا جا چکا اور یہی تو جمہوریت کا ''حسن‘‘ ہے جس کے جلوے ہم ان کی چالیس سالہ حکمرانیوں میں دیکھ چکے ہیں۔ جو اس آواز میں آواز ملانے کے لیے تیار ہے‘ اس پر مہربانیاں اور کرم فرمائیاں ہیں۔ کھوکھلے ہی سہی‘ عزت و تکریم کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بزورِ طاقت دبانے کا چلن ہے۔ اپنے ملک کے المناک ماضی کے دریچوں کی طرف بار بار نظر دوڑ جاتی ہے۔ دل دہلانے والی خبر افریقہ کے ملک کینیا سے آتی ہے کہ ارشد شریف ہم میں نہ رہے۔ سنتے ہی دل بیٹھ گیا‘ ہر طرف اداسی چھا گئی‘ ایک عجیب قسم کی خموشی نے آن........
© Roznama Dunya


