مولانا سے چند سوالات اور متعصب جی سیون ممالک!!!!
مولانا فضل الرحمن ایک مذہبی سیاسی جماعت کی سربراہی کرتے ہیں۔ ان کی مذہبی حیثیت سیاسی حیثیت پر غالب ہے۔ چونکہ وہ مذہب کے نمائندے ہیں اس لیے ان کے ووٹرز، حمایتی یا انہیں ماننے اور پسند کرنے والوں کے لیے مولانا فضل الرحمن کسی سیاسی رہنما سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور مولانا اپنی مذہبی حیثیت کا سیاسی استعمال کرتے رہتے ہیں۔ گوکہ وہ کبھی اس کا اعتراف تو نہیں کریں گے لیکن مولانا کے ماننے والوں کے لیے ان کا حکم کچھ اور ہی اہمیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب کسی شخص کو مذہبی حوالے سے اتنی اہمیت دی جاتی ہو لوگ اس کے حوالے سے حساس ہوں تو پھر ایسے شخص پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے مولانا فضل الرحمن دونوں شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی درست رہنمائی کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ گذشتہ روز انہوں نے ایک تقریر کی ہے۔ آج اس حوالے سے ہی بات کرتے ہیں ان کی اس تقریر میں سیاسی گفتگو بھی تھی، کچھ ناراضی بھی تھی اور انہوں نے اپنے ماننے والوں کو متحرک رکھنے اور انہیں جذباتی کرنے کے لیے مذہب کو بھی شامل کیا۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہتے ہیں کہ "رواں برس ہونے والے انتخابات میں دو ہزار اٹھارہ سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے۔ جعلی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ یہ اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں، بتاؤ بلوچستان کی اسمبلی کتنے میں خریدی؟ دھاندلی کے خلاف پہلے بھی آگے تھے اور اب بھی آگے رہیں گے۔ ہم اس تحریک سے جعلی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے، تحریک کو اب کوئی نہیں روک سکتا، اگر آئین اور اسمبلیوں کو روندوں گے تو ہم پہاڑ کی طرح کھڑے رہیں گے۔ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ہے، سیاست دانوں کو ہمیشہ استعمال کیا گیا،کل سیٹ نہیں تھی تو دھاندلی ہے، آج سیٹ مل گئی تو دھاندلی نہیں، سیاست دان سیٹوں پر نہ بکیں۔ پاکستان اسلام کے لیے بنا مگر اسلام نظر نہیں آتا ہے، ملک کو سیکولر اسٹیٹ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، ملک کو غیر محفوظ........
© Nawa-i-Waqt
visit website