[email protected]

بظاہرعام انتخابات میں تقریباً سوا مہینہ رہ گیا ہے۔ ہماری کئی سیاسی جماعتیں اور کئی سیاسی شخصیات انتخابات کے انعقاد بارے یقین ہی نہیں رکھتی تھیں ۔ دبے الفاظ میں بعض جوانب سے کہا جا رہا تھا: کچھ دن انتخابات مزید آگے کر دیے جائیںتو مناسب ہوگا۔

پاکستان کے یہ ہمارے سیاستدان شائد دُنیا کے انوکھے لوگ ہیں جو انتخابات کی مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔

اِسی دوران واشنگٹن گئے‘ ایک سینئر اور ذمے دار صاحب سے بھی منسوب یہ بیان سامنے آیا: انتخابات اگر 8فروری سے چند دن آگے چلے جائیں تو کوئی مضایقہ نہیں!خدا کا شکر ہے کہ اِس خیال اور خواہش کو بڑھاوا نہیں ملا ۔ اِسی کشمکش اور موافقت و مخالفت کی فضا میں 2024 کے انتخابات کے انعقاد نے جڑ پکڑ لی ہے اور اُمیدواروں نے طوعاً و کرہاً اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروا دیے ہیں ۔

پی ٹی آئی البتہ سینہ کوبی کرتی نظر آ رہی ہے کہ اُسے ’’کھل کھیلنے‘‘ کا موقع نہیں دیا جا رہا۔اگر پی ٹی آئی نے9مئی کو تباہ کن اُدھم نہ مچایا ہوتا تو شائد اُسے حسبِ خواہش انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران حسب ِ تمنا کھیلنے کی بھرپور اجازت مل جاتی ۔

اب معافیاں اور معذرتیں مانگی جا رہی ہیں مگر جرم اتنا سنگین اور گھناؤنا ہے کہ مرتکبین سے صرفِ نظر کرنا اور اُن سب کو یکمشت معاف کردینا سہل اور ممکن نہیں رہا۔ البتہ یہ منظر ششدر انگیز ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی آنکھوں میں پی ٹی آئی کے لیے مبینہ ’’محبت‘‘ کی ایک نئی چمک کوندی ہے۔ اِس چمک کی مخالفت نون لیگ اور پی پی پی کی طرف سے واضح طور پر سنائی اور دکھائی دی گئی ہے ۔

عوامی یقین میں استحکام بڑھ رہا ہے کہ8فروری 2024کے انتخابات ضرور ہوں گے ۔اِس ضمن میں سوالات کی یلغار کم ہو گئی ہے ۔ انتخابی حلقوں اور انتخابی نشانات کی شکل و صورت بھی واضح ہو رہی ہے۔ پونے دو سو کے قریب سیاسی جماعتوں کے اُمیدوار میدان میں اُتر رہے ہیں ۔

لیکن حقائق ایک بار یہی بتا رہے ہیں کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں وہی خواتین و حضرات ایک بار پھر پہنچیں گے جن کے سر پر بڑی پارٹیوں کے سربراہان کا دستِ شفقت ہوگا۔

خاص طور پر خواتین کی خصوصی نشستوں کے حوالے سے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے حتمی کوشش کی ہے کہ ایک بار پھر اقربا پروری کرتے ہُوئے اپنی رشتہ دار خواتین ، قریبی دوست خواتین اور امیر خواتین کو خصوصی نشستوں سے نوازا جائے ۔ اور کارکن خواتین کہاں جائیں ؟ کہاں فریاد کریں؟ کسے اور کہاں اپنی خدمات کی داستانیں سنائیں ؟ایک بیکار اور لاحاصل مشق!

کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے جانے کے مناظر دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈرز دو،دو، تین ، تین سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نون لیگ کے نواز شریف ، اُن کے برادرِ خورد، اُن کی صاحبزادی، اُن کا بھتیجا ، فیصل آباد سے اُن کا ایک قریبی عزیز نون لیگ کے ٹکٹ پر میدانِ انتخاب میں اُترتے دکھائی دے رہے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری، اُن کا نوجوان صاحبزادہ، اُن کی چھوٹی صاحبزادی، اُن کی سبھی ہمشیرگان براہِ راست قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ’’قابض‘‘ دکھائی دے رہے ہیں۔

پی پی پی کے لیے جان ، خون، وقت اور مال دینے والے جیالوں کی جگہ اور مقام مگر کہاں ہے ، اُنہیں ٹکٹوں اور خصوصی نشستوں سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے، نقار خانے میں بھلا طوطی کی یہ موہوم اور نازک و نزار آواز کون سنتا ہے ؟نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے جیالوں اور متوالوں کو بھاڑے کے ٹٹوؤں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ اِسی اقربا پروری نے پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہونے دی ہیں ۔ غیر جمہوری اور منہ زور اداروں سے گلہ تو دُور کی بات ہے ۔

لیڈروں کے اِس قابلِ مذمت رویے کی وجہ سے جو مایوسی پیدا ہُوئی ہے، اِسی کارن سابق وزیر اعظم اور سینئر ترین نون لیگی لیڈر، جناب شاہد خاقان عباسی، خود بھی 2024 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں اور نہ ہی اپنے صاحبزادے کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں۔

نون لیگ کی اقربانوازی نے ایک بڑے نون لیگی سیاستدان کو نون لیگ سے دُور کر دیا ہے ۔ یہ نون لیگ کے لیے ایک غیر معمولی نقصان ہے ۔لیکن نون لیگی لیڈرشپ پھر بھی اقربا پروری سے باز نہیں آ رہی ۔ مثال کے طور پر نون لیگ کی طرف سے پنجاب کے لیے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے 20ناموں کی فہرست میں طاہرہ اورنگزیب اور مریم اورنگزیب سرِ فہرست آئی ہیں ۔ یہ دونوں ماں بیٹی ہیں۔

مبینہ طور پرانھیں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کی حمایت حاصل ہے‘ مریم اورنگزیب کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے خصوصی نشست بھی دی گئی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر مریم نوازپنجاب کی وزیر اعلیٰ بنائی گئیں تو مریم اورنگزیب کو پنجاب میں اہم ترین پورٹ فولیو دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ خواجہ آصف کی بیگم مسرت آصف ، اور خواجہ صاحب کی بھانجی، شیزا فاطمہ، کو بھی قومی اسمبلی کے لیے خصوصی نشستوں کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے ۔

ریوڑیاں اپنے مقربین ہی میں تقسیم کرنی ہیں تو باقی وفادار کارکنان کہاں جائیں گے ؟ پنجاب سے خواتین کے لیے خصوصی نشستوں میں عظمیٰ زاہد بخاری کا نام مذکورہ فہرست کے آخر میں رکھا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ عظمیٰ بخاری نون لیگ، نواز و شہباز شریف اور مریم نواز کی اولین ترجیح میں شامل نہیں ہیں ۔

حالانکہ پنجاب میں پچھلے چار سال کی سیاست میں عظمیٰ بخاری نے سیاست اور میڈیا میں نون لیگ کی جس اسلوب میں شاندار خدمات انجام دی ہیں ، نون لیگ کی ایک جنگجو کارکن کی حیثیت میں نام پایا ہے، نون لیگ کے ہر احتجاجی جلسے جلوس کے ہراول دستے میں ’’مردانہ وار‘‘ شریک رہی ہیں ،اِن کریڈینشلز کی بنیاد پر عظمیٰ زاہد بخاری کا نام تو نون لیگ کی خصوصی نشستوں میں ٹاپ پر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن لیڈر کا تقرب جادُو دکھا گیا ہے۔

اقربا پروری سیاست، معیشت اور سماج کے لیے ایک مہلک بیماری ہے ۔ یہ بیماری اگر میرٹ کی دُنیا میں داخل ہو جائے تو سارے سماج کے اعتبار اور یقین کو بارُود کی طرح اُڑا کر رکھ دیتی ہے ۔ اب یہ مہلک جراثیم ہماری سیاست میں داخل ہو کر صاف دکھائی دے رہے ہیں اور اِس کے تباہ کن اثرات بھی ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ لیڈر شپ نے یکساں طور پر اقرباپروری کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہُوئے اپنے محنتی، کمٹڈ اور جاں نثار کارکنوں کو بددل اور مایوس کیا ہے ۔

QOSHE - 2024 کے انتخابات اور لیڈروں کی اقربا پروری - تنویر قیصر شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

2024 کے انتخابات اور لیڈروں کی اقربا پروری

9 0
29.12.2023

[email protected]

بظاہرعام انتخابات میں تقریباً سوا مہینہ رہ گیا ہے۔ ہماری کئی سیاسی جماعتیں اور کئی سیاسی شخصیات انتخابات کے انعقاد بارے یقین ہی نہیں رکھتی تھیں ۔ دبے الفاظ میں بعض جوانب سے کہا جا رہا تھا: کچھ دن انتخابات مزید آگے کر دیے جائیںتو مناسب ہوگا۔

پاکستان کے یہ ہمارے سیاستدان شائد دُنیا کے انوکھے لوگ ہیں جو انتخابات کی مخالفت کرتے پائے گئے ہیں۔

اِسی دوران واشنگٹن گئے‘ ایک سینئر اور ذمے دار صاحب سے بھی منسوب یہ بیان سامنے آیا: انتخابات اگر 8فروری سے چند دن آگے چلے جائیں تو کوئی مضایقہ نہیں!خدا کا شکر ہے کہ اِس خیال اور خواہش کو بڑھاوا نہیں ملا ۔ اِسی کشمکش اور موافقت و مخالفت کی فضا میں 2024 کے انتخابات کے انعقاد نے جڑ پکڑ لی ہے اور اُمیدواروں نے طوعاً و کرہاً اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروا دیے ہیں ۔

پی ٹی آئی البتہ سینہ کوبی کرتی نظر آ رہی ہے کہ اُسے ’’کھل کھیلنے‘‘ کا موقع نہیں دیا جا رہا۔اگر پی ٹی آئی نے9مئی کو تباہ کن اُدھم نہ مچایا ہوتا تو شائد اُسے حسبِ خواہش انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران حسب ِ تمنا کھیلنے کی بھرپور اجازت مل جاتی ۔

اب معافیاں اور معذرتیں مانگی جا رہی ہیں مگر جرم اتنا سنگین اور گھناؤنا ہے کہ مرتکبین سے صرفِ نظر کرنا اور اُن سب کو یکمشت معاف کردینا سہل اور ممکن نہیں رہا۔ البتہ یہ منظر ششدر انگیز ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی آنکھوں میں پی ٹی آئی کے لیے مبینہ ’’محبت‘‘ کی ایک نئی چمک کوندی ہے۔ اِس چمک کی مخالفت نون لیگ اور پی پی پی کی طرف سے واضح طور پر........

© Express News


Get it on Google Play