[email protected]

جمہوری نظام حکومت میں انتخابات کے بعد دوسرا مرحلہ حکومت سازی کا ہوتا ہے، جو پارٹی الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو اصولی طور پر صدر مملکت اسی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے ہیں۔

اکثریتی جماعت کسی دوسری پارٹی یا گروپ کے تعاون و اتحاد کے بغیر باآسانی اپنی حکومت بنا لیتی ہے جوکہ مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پارلیمان میں قانون سازی کے عمل سے لے کر بجٹ کی منظوری تک مشکل اور سخت ترین معاشی، سیاسی، سماجی اور آئینی اقدامات اٹھاتے وقت اسے اپوزیشن کی مزاحمت اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مضبوط حکومت کا وزیر اعظم اور اس کی کابینہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی اور معاشی استحکام کے حوالے سے بڑے فیصلے آسانی سے کر سکتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر انتخابات میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکے تو بہ امر مجبوری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون و اتحاد کر کے مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں تاکہ جمہوری نظام کا تسلسل قائم اور آگے بڑھتا رہے۔ مخلوط حکومتوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت اپنے طور پر تنہا کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر اسے اتحادی جماعتوں اور پریشرگروپوں سے مشاورت کرنا پڑتی ہے۔

مخلوط حکومت کا وزیر اعظم ہمہ وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے دباؤ میں رہتا ہے۔ آئینی ترامیم کا مسئلہ ہو یا قانون سازی کا وہ آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتا۔ اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر وہ ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کا نقصان ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ملک میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وطن عزیز کی معروف سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام (ف)، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں کوئی بھی سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکیں۔

حالاں کہ ان جماعتوں کے قائدین سیاست کا دہائیوں پر مبنی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے بڑوں نے جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کی اور ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ مذکورہ جماعتوں کے پیر و جواں رہنماؤں نے ملک کے چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلائی، ہر طرح کی آزادیاں، سہولتیں اور تعاون انھیں حاصل تھا۔ ان کے انتخابی نشان شیر، تیر، کتاب، پتنگ وغیرہ ان کی واضح پہچان تھے۔ ان تمام تر ’’ آسانیوں‘‘ کے باوجود بھی ان میں سے کوئی بھی جماعت سو نشستیں بھی حاصل نہ کرسکی۔

ان کے مقابلے میں آزاد امیدواروں نے جنھیں پس پردہ پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی، سب سے زیادہ 92 سیٹیں جیت لیں ، ان کی قیادت جیل میں ہے، عمران خان کو 31 سال سزا ہو چکی ہے، وہ سیاست کے لیے بھی نااہل ہو چکے ہیں، انتخابی مہم کے دوران بھی آزاد امیدواروں کو قدم بہ قدم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھی انھوں نے یہ غیر متوقع حیران کن کامیابی حاصل کر کے قومی و بین الاقوامی مبصرین و تجزیہ نگاروں کو ششدر کر دیا۔

تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار پارلیمان میں سادہ اکثریت سے محروم اور وفاق میں حکومت بنانے سے قاصر ہیں، وہ صرف کے پی کے میں حکومت بنا سکتے ہیں جہاں انھیں اکثریت حاصل ہے اور وہاں انھوں نے علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے۔

اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت ہونے کے باعث باآسانی حکومت بنا لے گی سو (ن) لیگ نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کو نامزد کردیا ہے جو پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت رکھتی ہے اور آسانی سے وہاں اس کی حکومت بن جائے گی۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے لیے بھی پی پی پی کی خاتون رکن اور آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کا نام لسٹ پر ہے۔ بلوچستان میں پی پی پی اور (ن) لیگ کا مشترکہ وزیر اعلیٰ ہوگا۔

وفاق میں حکومت سازی کا مرحلہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ قبل از الیکشن (ن) لیگ کو قوی امید تھی کہ وہ 8 فروری کے انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرلے گی اور نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم بن کر تاریخ رقم کر دیں گے، لیکن عوام کی اکثریت نے آزاد امیدواروں کو کامیاب کروا کے بازی پلٹ دی۔ میاں نواز شریف نے اپنی 9 فروری کی تقریر میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں پی پی پی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی۔ شہباز شریف نے سابق صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی اور فضل الرحمن سے ملاقاتوں میں پی ڈی ایم طرز کی مخلوط حکومت بنانے کا فارمولا پیش کیا۔

جس پر پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے دو اجلاسوں میں غور و خوص کیا گیا۔ پی پی پی رہنماؤں کے سامنے پی ڈی ایم حکومت کا تلخ تجربہ بھی تھا اور شہباز شریف مخلوط حکومت کی 16 ماہ کی ناقص کارکردگی تھی کہ وہ وعدوں و دعوؤں کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

اتحادی حکومت کے دور میں مہنگائی 40 فی صد سے اوپر تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہی، ڈالر تین سو سے اوپر چلا گیا، بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض کے حصول کے لیے عوام پر گرانی کے بم برسائے گئے، معیشت پاتال میں چلی گئی، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی، عام آدمی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ ملک کی مجموعی صورت آج بھی ناگفتہ بہ ہے۔

امن و امان سے لے کر معیشت کی بحالی تک، آئی ایم ایف سے مزید قرضے کے حصول سے لے کر عوام کو دعوؤں اور وعدوں کے مطابق ریلیف دینے تک، غربت، مہنگائی، بے روزگاری ختم کرنے کے بڑے چیلنج سے لے کر سیاسی استحکام تک ملک کو بڑے سنگین مسائل و چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کرنا پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ببول کے کانٹوں کا ہار ثابت ہوگا۔ آصف زرداری ملک کی نازک ترین صورت حال سے پوری طرح آگاہ ہیں اور عوام کے جذبات اور ممکنہ منفی رد عمل سے بھی پوری طرح باخبر ہیں، وہ اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔

اس باعث انھوں نے بڑی احتیاط اور دانش مندی سے سیاسی چال چلتے ہوئے سی ای سی میں مدبرانہ فیصلے کیے۔ پی پی پی بلاول زرداری کو وزیر اعظم بنانے کے فیصلے سے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی بعینہ مخلوط حکومت میں باقاعدہ شامل ہو کر کابینہ کا حصہ بننے سے بھی انکار کر دیا البتہ شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم ووٹ دینے پر آمادگی ظاہر کی اور بدلے میں آصف زرداری کو صدر مملکت، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے لیے (ن) لیگ سے تعاون مانگ لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنی مجلس شوری کے فیصلے کے مطابق پی پی پی کی پیروی کرتے ہوئے مخلوط حکومت کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کردیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کیا ہے۔ شہباز شریف پی پی پی اور ایم کیو ایم کے تعاون سے وزیر اعظم تو بن جائیں گے لیکن ملک کو درپیش سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا ان کے لیے آسان نہ ہوگا۔ مشکل فیصلوں کا سارا ملبہ (ن) لیگ کے کھاتے میں جائے گا جس کا سیاسی نقصان انھیں آیندہ الیکشن میں اٹھانا پڑے گا۔

پی پی پی نے سیاسی بصیرت سے اپنا دامن حکومتی آلودگیوں سے بچا لیا، وہ اپنے ووٹرز کو مطمئن کرسکے گی کہ ہم شہباز حکومت کی کارکردگی میں شامل نہیں ہیں۔ بلاول زرداری کے لیے میدان کھلا ہے انھوں نے مہارت سے چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلا کر پی پی پی کو پہلے سے زیادہ مقبول بنایا ہے وہ آیندہ کے وزیر اعظم ہوں گے۔ بہرحال وفاق میں شہباز شریف کی مخلوط حکومت پی ڈی ایم حکومت سے زیادہ کمزور ہوگی۔ اہم سوال یہ ہے کہ پھر وہ بڑے اور مشکل فیصلے کیسے کرے گی؟

QOSHE - کمزور حکومت اور مشکل فیصلے! - ایم جے گوہر
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کمزور حکومت اور مشکل فیصلے!

8 0
20.02.2024

[email protected]

جمہوری نظام حکومت میں انتخابات کے بعد دوسرا مرحلہ حکومت سازی کا ہوتا ہے، جو پارٹی الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو اصولی طور پر صدر مملکت اسی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے ہیں۔

اکثریتی جماعت کسی دوسری پارٹی یا گروپ کے تعاون و اتحاد کے بغیر باآسانی اپنی حکومت بنا لیتی ہے جوکہ مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پارلیمان میں قانون سازی کے عمل سے لے کر بجٹ کی منظوری تک مشکل اور سخت ترین معاشی، سیاسی، سماجی اور آئینی اقدامات اٹھاتے وقت اسے اپوزیشن کی مزاحمت اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مضبوط حکومت کا وزیر اعظم اور اس کی کابینہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی اور معاشی استحکام کے حوالے سے بڑے فیصلے آسانی سے کر سکتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر انتخابات میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکے تو بہ امر مجبوری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون و اتحاد کر کے مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں تاکہ جمہوری نظام کا تسلسل قائم اور آگے بڑھتا رہے۔ مخلوط حکومتوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اتحاد میں شامل کوئی بھی جماعت اپنے طور پر تنہا کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر اسے اتحادی جماعتوں اور پریشرگروپوں سے مشاورت کرنا پڑتی ہے۔

مخلوط حکومت کا وزیر اعظم ہمہ وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے دباؤ میں رہتا ہے۔ آئینی ترامیم کا مسئلہ ہو یا قانون سازی کا وہ آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتا۔ اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر وہ ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کا نقصان ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

ملک میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وطن عزیز کی معروف سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام (ف)، ایم کیو ایم........

© Express News


Get it on Google Play