[email protected]

فرانسیسی دارالحکومت، پیرس، میں بروئے کار معتبر عالمی تھنک ٹینک(IPSOS)نے 6فروری کو اپنے تازہ ترین سروے میں کہا ہے : ’’ 8 فروری کے پاکستانی انتخابات کے نتائج کو76فیصد پاکستانی تسلیم کر لیں گے۔‘‘ اِس کے باوجود وہ کون ہیں جو انتخابی نتائج کو مشکوک و مشتبہ بنانا چاہتے ہیں؟ آئیے اِس کا ذرا جائزہ لیتے ہیں!

بروز جمعرات ، بتاریخ 8 فروری، جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے ، پاکستان بھر میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ انتخابات سے قبل بلوچستان اور کے پی کے میں بعض جگہوں پر دہشت گردوں نے ایسی خونی وارداتیں ڈالیں کہ عوام اور انتخابی اُمیدواروں کے دل دہل گئے۔

5فروری کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں تھانے پر حملہ کرکے 10پولیس اہلکار شہید کر دیے۔ 7فروری کو بلوچستان ( قلعہ سیف اللہ اور پشین) میں جے یو آئی ایف اور آزاد اُمیدوار کے انتخابی دفاتر کے باہر بم دھماکہ ہُوا جس نے 30 افراد کی جانیں لے لیں۔یقیناًیہ مشکل اور پُر آزمائش لمحات ہیں۔

برداشت اور صبر کے لمحات۔ ووٹنگ کے بعد نتائج پر اگر صبر اور برداشت کی بجائے الزام تراشی اور طیش کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ انتخابات کی رُوح کو کچلنے کے مترادف ہوگا ۔ جس وقت یہ سطور شائع ہوں گی، توقع ہے کہ کئی انتخابی حلقوں کے نتائج عوام کے سامنے آ چکے ہوں گے۔

یہ مناظر مگر افسوس کے ساتھ دیکھے گئے ہیں کہ 8فروری کے انتخابات سے قبل ہی بعض اطراف سے بدگمانی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ صد افسوس! حالانکہ ملک کے طاقتور اور مقتدر ترین اداروں کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ8فروری کے انتخابات میں دھاندلی ہوگی نہ جھرلو پھرنے دیا جائیگا اور نہ ہی کسی کو سینہ زوری کرنے دی جائیگی ۔

شکوک و شبہات پھیلانے والوں میں اپنے بھی شامل ہیں اور غیر بھی۔ مثال کے طور پر5 فروری کو معروف بھارتی ویب سائیٹ اخبارکے مشہور صحافی، کرن تھاپر، کو انٹرویو دیتے ہُوئے پاکستان کے ایک اخبار نویس اور مصنف نے الیکشن بارے سوالات کے جواب دیتے ہُوئے کہا: ’’ 8فروری کے انتخابات کا تو پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے ۔

8فروری کو تو انتخابی نتائج کا اعلان کرنے کے لیے محض خانہ پُری اور رسم پوری کرنی ہے ۔‘‘جب گھر کے اندر ہی سے انتخابی نتائج بارے شبہات پھیلانے کی سازش کی جارہی ہو تو غیروں کو اِس میں اضافہ کرنے کی از خود مہمیز مل جاتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ پاکستانی صحافی کو بھارتی صحافی سے پاکستانی انتخابات کو مشتبہ بنانے کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں ۔ بھارت کو تو ویسے بھی پاکستان کے خلاف بھد اُڑانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ۔

8فروری کے عام انتخابات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل لندن میں Future of Pakistanکے زیرعنوان ایک کانفرنس ہُوئی ۔ اِس کانفرنس کا انعقاد مشہور برطانوی درسگاہ LSE کے پاکستانی طلبا و طالبات نے کیا تھا ۔

اِس کانفرنس کے ایک سیشن سے خطاب کرنے کے لیے پاکستان کی ایک معزز شخصیت کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران مذکورہ شخصیت نے یہ بھی فرمایا: ’’8فروری کے انتخابات الیکشن برائے الیکشن نہیں بلکہ الیکشن جینوئن ہونے چاہئیں۔ 8فروری کے بعد اِس بارے میں کہا جا سکے گا کہ الیکشن کیسے ہُوئے ۔‘‘یہ الفاظ قابلِ غور ہیں ۔

پس ِ دیوارِ زنداں پڑے اور سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی اور اُن کی جماعت تو مسلسل پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ 8فروری کے انتخابات شفاف نہیں ہورہے اور یہ بھی کہ اُنہیں نون لیگ کے مقابلے میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی ، لیکن اگر ہم انتخابی مہمات کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی تمام تقاریر کا بغور جائزہ اور تجزیہ کریں تو مسلسل فرما رہے ہیں کہ انتخابات میں کسی کو لاڈلا بناکر چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔

اُنھوں نے یہ بھی کہا: ’’ میرے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالا گیا تو ایسا پیچھا کروں گا کہ وہ عمران خان کو بھول جائیں گے ۔‘‘ بلاول صاحب مگر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کون اُن کے ووٹوں پر ممکنہ طور پر ڈاکہ ڈال سکتا ہے ؟

یوں پاکستان بھر میں ایسی فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی جو انتخابی نتائج کے حوالے سے کہر زدہ کہلائی جا سکتی ہے۔ اِس منفی پراپیگنڈے سے غیروں کو بھی 8فروری کے انتخابی نتائج بارے اپنے قیاسات اور قیافوں کے گھوڑے دوڑانے کے مواقع مل گئے ۔

مثال کے طور پر 5فروری2024ء کی اشاعت میں معروف امریکی جریدے (TIME) نے صحافی Charlie Campbellکی ایک اسٹوری بعنوان Pakistan,s Elections Are Being brazenly Rigged.Why Does,t the USA Seem to Care? اِس نیوز اسٹوری کے خالق نے یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگایا ہے کہ پاکستان میں 8فروری کے انتخابات شکوک سے مبرا نہیں ہیں۔ ہمیں ’’ٹائم‘‘ کی اِس مفسدانہ سوچ پر افسوس ہے۔ اِس کا مگر کیا علاج ہے کہ یہ نوبت ہمارے اپنے بعض لوگوں کے پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔

پاکستان میں عین انتخابات کے ایام میں جریدہ ’’ٹائم ‘‘ کی مذکورہ بالا سٹوری کا شائع ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ کئی عالمی قوتیں بھیس بدل بدل کر 8فروری کے انتخابی نتائج کو متنازع بنا کر پاکستان میں انتشار و افتراق پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ ایسا مگر ہو نہیں سکے گا۔

QOSHE - انتخابی نتائج کو مشتبہ بنانے کی سازشیں ؟ - تنویر قیصر شاہد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتخابی نتائج کو مشتبہ بنانے کی سازشیں ؟

14 1
09.02.2024

[email protected]

فرانسیسی دارالحکومت، پیرس، میں بروئے کار معتبر عالمی تھنک ٹینک(IPSOS)نے 6فروری کو اپنے تازہ ترین سروے میں کہا ہے : ’’ 8 فروری کے پاکستانی انتخابات کے نتائج کو76فیصد پاکستانی تسلیم کر لیں گے۔‘‘ اِس کے باوجود وہ کون ہیں جو انتخابی نتائج کو مشکوک و مشتبہ بنانا چاہتے ہیں؟ آئیے اِس کا ذرا جائزہ لیتے ہیں!

بروز جمعرات ، بتاریخ 8 فروری، جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے ، پاکستان بھر میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ انتخابات سے قبل بلوچستان اور کے پی کے میں بعض جگہوں پر دہشت گردوں نے ایسی خونی وارداتیں ڈالیں کہ عوام اور انتخابی اُمیدواروں کے دل دہل گئے۔

5فروری کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے رات کی تاریکی میں تھانے پر حملہ کرکے 10پولیس اہلکار شہید کر دیے۔ 7فروری کو بلوچستان ( قلعہ سیف اللہ اور پشین) میں جے یو آئی ایف اور آزاد اُمیدوار کے انتخابی دفاتر کے باہر بم دھماکہ ہُوا جس نے 30 افراد کی جانیں لے لیں۔یقیناًیہ مشکل اور پُر آزمائش لمحات ہیں۔

برداشت اور صبر کے لمحات۔ ووٹنگ کے بعد نتائج پر اگر صبر اور برداشت کی بجائے الزام تراشی اور طیش کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ انتخابات کی رُوح کو کچلنے کے مترادف ہوگا ۔ جس وقت........

© Express News


Get it on Google Play