[email protected]

بلاشبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے لیاری والوں کی عزت نفس کا احترام کرتے ہوئے، انھیں اہمیت دی۔

لیاری میں قابل ذکر ترقیاتی کام ان ہی کے دور حکومت کے مرہون منت ہیں جن میں لیزکا اجراء، پانی، سیوریج، گیس اور ٹیلی فون کی لائنیں بچھانا، روزگارکی فراہمی، کھڈا میمن سوسائٹی کی جدیدآبادکاری کرنا، لیاری جنرل اسپتال، ٹیلی فون ایکسچینج، لیاری جنرل پوسٹ آفس، لیاری ڈگری کالج، چاکیواڑہ اومنی بس جنکشن کا قیام، سڑکوں کی استر کاری اورگلیوں کی پختگی وہ میگا پروجیکٹ اور ترقیاتی کام تھے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

لیاری کی تنگ وتاریک گلیوں اور سڑکوں کوکشادہ کرنا، اسٹریٹ لائٹ سے لیاری کو جگمگا دینا، پارکوں کو سرسبزآباد کرتے ہوئے، وہاں عوام کو تفریح طبع کے لیے ٹی وی نصب کرنا، لیاری کی مصروف سڑکوں پر ٹریفک سگنل نصب کرنا، خواتین کے لیے ہوم انڈسٹری قائم کرنا، لیاری میں تین منزلہ سے زائد عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا اور لیاری کی گلیوں میں ایک عام آدمی کی طرح پیدل گھومنا اور عام لوگوں سے گلے ملنا۔

ان سے ہاتھ ملانا اور ان کے مسائل سن کر انھیں فوری طور پر حل کرنا ذوالفقارعلی بھٹوکی لیاری کے حوالے سے وہ عوامی خدمات ہیں جنھیں لیاری کی چوتھی نسل بھی اپنے لیے انعام تصورکرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی اہل لیاری کے دلوں میں زندہ ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل لیاری کے ساتھ اپنے تعلق میں کوئی کمی نہ آنے دی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دو، ادوارکی حکومتوں کے دوران لیاری میں بہت سے ترقیاتی کام کیے، جن میں بے نظیر یونیورسٹی، ایاز سموں نرسنگ انسٹیٹیوٹ اور لیاری پولی ٹیکنیک سینٹر قائم کیا، لیاری ڈیلوپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سردار اللہ بخش گبول پارک اورگنجی گراؤنڈزکو اسٹیڈیم کا درجہ دیا۔ لیاری گرڈ اسٹیشن قائم کیا گیا۔83کروڑ روپے کی لاگت سے لیاری پیکیج کے تحت بہت سے ترقیاتی کام کروائے۔

لیاری ری ڈیولپمنٹ واٹرسپلائی امپرومنٹ اسکیم کے تحت روزانہ 30 لاکھ گیلن اضافی پانی کی فراہمی کے لیے کراچی واٹر سیوریج بورڈ کو ڈھائی کروڑ روپے فراہم کیے گئے۔

معتبر ذرایع کے مطابق 1988میں لیاری کے تین ہزار بے روزگار افراد کو ملازمتیں بھی فراہم کی تھیں۔ تین جولائی 1996 کی شام کنکری گراؤنڈ لیاری میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیر اعظم سی او ڈی فلٹر پلانٹ سے لیاری واٹر سپلائی اسکیم کا افتتاح کیا۔ 17کلومیٹر کے فاصلے سے لیاری تک بچھائی گئی اس لائن سے لیاری بھر میں 24گھنٹے پینے کا پانی وافر مقدار میں سپلائی کیا جا رہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس وقت سے لے کر اب تک پانی کی اس پائپ لائن سے دیگر علاقوں کو سیکڑوں ناجائز کنکشن دیے جا چکے ہیں۔ ان ہی کے دور حکومت میں اہل لیاری کے بے گھر لوگوں کے لیے ہاکس بے اسکیم 42 شروع کی گئی مگر تاحال نا معلوم وجوہات کی بنا ء پر آلاٹی آباد کاری کے منتظر ہیں۔

1994میں ہاکس بے میں لیاری کی بیواؤں کے لیے 500 مکانات تعمیر کروائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکو مت میں لیاری میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے فہرست خاصی طویل ہے، اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں لیکن روحانی لحاظ سے وہ آج بھی لیاری میں آباد اپنے ووٹروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹوکی حکومتوں کے بعد بھی پی پی پی برسر اقتدار رہی اور ہمیشہ کی طرح لیاری پی پی پی کا گڑھ رہا اور اس بار بھی پی پی پی حکومت نے لیاری میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا اور لیاری پیکیج کے تحت بہت سے ترقیاتی کام کیے گئے لیکن درمیان میں لیاری میں بدامنی نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔

لیاری گینگ کے زیر اثر رہا، اس دور حکومت میں بھی لیاری میں ترقیاتی کام ہوئے لیکن یہ کام بدامنی کی وجہ سے عوامی مقبولیت حاصل نہ کر پائے۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لیاری کے حلقہ این اے 246 سے اور دیگر صوبائی اسمبلی کے امیدوار انتخابات ہارگئے تھے، قبل ازیں بلدیاتی سطح پر لیاری ٹاؤن اور بعد ازاں ضلع جنوبی میں پی پی پی کی مقامی حکومت تھی جن کی توسط سے لیاری میں بہت کام ہوئے تھے، لیکن لیاری میں مسلسل بدامنی نے لوگوں کی نفسیات کافی حد تک بدل دی تھی۔

اس وجہ سے پہلی بار پی پی پی کو لیاری سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی، جس نے لیاری میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی بھر پورکوشش کی، خاص طور پر مقامی رہنمائوں نے پی پی پی ضلع جنوبی کے صدرخلیل ہوت کی سرکردگی میں عوام سے قریبی رابطہ رکھا، چھوٹے بڑے جلسے منعقد کیے، کارکنوں کو فعال رکھا، لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ ایسے میں لیاری کے منتخب نمایندوں کی سرد مہری نے بھی اہم کردار ادا کیا، جن کا تعلق پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک سے تھا جس کا فائدہ پی پی پی کو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ملا۔

لیاری کی 13یونین کونسلز میں سے 12یونین کونسل میں پی پی پی کے نمایندے کامیاب ہوئے اور لیاری ٹاؤن میں پی پی پی کا چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ لیاری سے اس کا کوئی بھی عوامی نمایندہ منتخب نہیں تھا، اس کے باوجود انھوں نے لیاری میں ترقیاتی کاموں کے لیے 3 ارب روپے کا پیکیج دیا جس کے تحت بہت سے ترقیاتی کام ہوئے، جس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔

ان کاموں کی فہرست طویل ہے صرف میگا پروجیکٹس بیان کیے جاتے ہیں جن میں چاکیواڑہ روڈ، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ، ٹینری روڈ ، محراب خان عیسی خان روڈ، مرزا آدم خان روڈ میں پانی اور سیوریج کے بڑے بڑے پائپ لائن بچھائی گئی ہے، ان کی استرکاری کی گئی ہے، فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں، اسٹریٹ لائٹس لگائی گئی ہیں۔آٹھ چوک کے ازسر نو تعمیراتی کام کیے گئے ہیں۔ ایک پانچ منزلہ عمارت تعمیرکی جا رہی ہے جس میں 250 نشستوں کا ایک جدید ہال ہوگا اور متعلقہ محکموں کے دفاتر ہونگے جہاں عوام کے بنیادی مسائل ون ونڈو حل کیے جائیں گے۔

سندھ حکومت نے ورلڈ بینک کے تعاون سے کنکری گراؤنڈ کو جدید اسٹیڈیم بنا دیا ہے۔ اسی طرح لیاری کی گلیوں اور سڑکوں کے درمیان سیوریج اور پانی کی پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں اور انھیں پختہ کیا گیا ہے، یہ کام تاحال جاری ہیں۔ لیاری میں پینے کے پانی کی سپلائی بہتر بنانے کے لیے مرزا آدم خان روڈ سے اندرون لیاری تک پانی کی میگا پروجیکٹ پرکام جاری ہے، اس پانی کی پائپ لائن کو سڑک کے اوپری سطح پر نصب کیا جا رہا ہے تاکہ لیاری کا پانی چوری نہ ہوسکے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا تھا۔

لیاری کے علاقے شاہ بیگ لین بغدادی میں پانی کی فراہمی میں بہتری لانے کے لیے الگ پمپنگ اسٹیشن تعمیرکیا گیا ہے، جس کا عنقریب افتتاح ہونے والا ہے۔ لیاری کے نوجوانوں کو روزگار فراہمی کا سلسلہ حکومت کے آخری دنوں میں شروع کیا گیا جسے ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، اس طرح یہ عمل اب 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد مکمل ہوگا۔

فی الحال لیاری کے لوگ گیس اور بجلی کے ستائے ہوئے ہیں، جس کا احساس پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں کو بھی ہے کیونکہ وہ خود بھی گیس اور بجلی کے مارے ہوئے ہیں۔ اہل لیاری کو ان اہم بنیادی مسائل سے چھٹکارا ملے تو انتخابات میں کچھ بات بنے۔

QOSHE - لیاری کے مسائل اور انتخابات - شبیر احمد ارمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

لیاری کے مسائل اور انتخابات

9 1
21.01.2024

[email protected]

بلاشبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے لیاری والوں کی عزت نفس کا احترام کرتے ہوئے، انھیں اہمیت دی۔

لیاری میں قابل ذکر ترقیاتی کام ان ہی کے دور حکومت کے مرہون منت ہیں جن میں لیزکا اجراء، پانی، سیوریج، گیس اور ٹیلی فون کی لائنیں بچھانا، روزگارکی فراہمی، کھڈا میمن سوسائٹی کی جدیدآبادکاری کرنا، لیاری جنرل اسپتال، ٹیلی فون ایکسچینج، لیاری جنرل پوسٹ آفس، لیاری ڈگری کالج، چاکیواڑہ اومنی بس جنکشن کا قیام، سڑکوں کی استر کاری اورگلیوں کی پختگی وہ میگا پروجیکٹ اور ترقیاتی کام تھے جو آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

لیاری کی تنگ وتاریک گلیوں اور سڑکوں کوکشادہ کرنا، اسٹریٹ لائٹ سے لیاری کو جگمگا دینا، پارکوں کو سرسبزآباد کرتے ہوئے، وہاں عوام کو تفریح طبع کے لیے ٹی وی نصب کرنا، لیاری کی مصروف سڑکوں پر ٹریفک سگنل نصب کرنا، خواتین کے لیے ہوم انڈسٹری قائم کرنا، لیاری میں تین منزلہ سے زائد عمارت کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا اور لیاری کی گلیوں میں ایک عام آدمی کی طرح پیدل گھومنا اور عام لوگوں سے گلے ملنا۔

ان سے ہاتھ ملانا اور ان کے مسائل سن کر انھیں فوری طور پر حل کرنا ذوالفقارعلی بھٹوکی لیاری کے حوالے سے وہ عوامی خدمات ہیں جنھیں لیاری کی چوتھی نسل بھی اپنے لیے انعام تصورکرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی اہل لیاری کے دلوں میں زندہ ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل لیاری کے ساتھ اپنے تعلق میں کوئی کمی نہ آنے دی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دو، ادوارکی حکومتوں کے دوران لیاری میں بہت سے ترقیاتی کام کیے، جن میں بے نظیر یونیورسٹی، ایاز سموں نرسنگ انسٹیٹیوٹ اور لیاری پولی ٹیکنیک........

© Express News


Get it on Google Play