پنجاب پراپرٹی اونرشپ آرڈیننس 2025: قانون، انصاف اور اختیار کے درمیان توازن
پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 بظاہر ایک نیک نیتی کے ساتھ متعارف کروایا گیا قانون تھا۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ آرڈیننس برسوں سے ستائے گئے عام شہریوں، غریبوں، بیواؤں اور کمزور طبقات کو قبضہ مافیا سے نجات دلانے کے لیے لایا گیا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر نیت واقعی نیک تھی تو پھر قانون کی تشکیل اور اس کے نفاذ کا طریقہ ایسا کیوں رکھا گیا کہ خود انصاف کی بنیادیں لرزنے لگیں؟ اور کیوں چند ہی دنوں میں لاہور ہائیکورٹ کو نہ صرف اس قانون پر عملدرآمد روکنا پڑا بلکہ اس کے تحت دیے گئے قبضے بھی واپس کروانے کا حکم دینا پڑا؟
یہ وہ مقام ہے جہاں معاملہ صرف قبضہ مافیا بمقابلہ عوام کا نہیں رہتا بلکہ ریاستی اختیارات، آئینی توازن اور شہری آزادیوں کا بن جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا مؤقف ہے کہ اس قانون کی معطلی عوام کی نہیں بلکہ قبضہ مافیا کی جیت ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم کے ریمارکس ہیں جو اس قانون کو اختیارات کے خطرناک ارتکاز کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں بیانیوں کے درمیان اصل سوال دب جاتا ہے: کیا انصاف کا حصول انتظامی طاقت کے زور پر ممکن ہے یا آئینی طریقہ کار ہی واحد راستہ ہے؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم کے ریمارکس محض جذباتی نہیں بلکہ آئینی خدشات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر یہ قانون نافذ رہا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کروایا جاسکتا ہے، دراصل قانون کی وسعت اور خطرناک امکانات کی نشاندہی ہے۔ جب ایک ڈپٹی کمشنر کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کسی بھی جائیداد کے بارے میں درخواست وصول کرے، محدود سماعت کرے اور عملاً قبضہ دلوادے، تو پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ کون طاقتور ہے اور کون کمزور، بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ کل کو کون محفوظ رہے گا؟
حکومت کا........





















Toi Staff
Sabine Sterk
Penny S. Tee
Gideon Levy
Waka Ikeda
Grant Arthur Gochin
Beth Kuhel