’’آپ کن موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں؟‘‘ یہ سوال اکثر نئے لکھنے والوں سے پوچھا جاتا ہے۔

’’معاشرتی مسائل پر۔‘‘ اکثر لکھاری یہی لگا بندھا جواب دیتے ہیں۔

لیکن اگر بغور جائزہ لیجیے تو ہم میں سے بیشتر لکھاری صرف سیاست کے ہو رہتے ہیں۔ وہ سیاست سے نکلنے کو تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی معاشرتی مسائل کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

نفسیاتی رویے، ایک ایسا موضوع ہے جس پر آپ لکھنا شروع کریں تو صفحات کم محسوس ہوں گے۔ کیوں کہ ہمارے معاشرتی مسائل میں سے بیشتر کی وجہ ہمارے رویے ہی ہیں۔ اور مزید نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ ہم ان رویوں کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ان سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ یعنی ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے ’’سب اچھا ہے‘‘ کا تصور مضبوط کرتے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم ایک ایسی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں جہاں سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ ہم وقت سے پہلے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ خاندان ہم سے مطمئن نہیں ہوتا۔ یار دوستوں کے گلے شکوے بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہمارے رویے میں تلخی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ہم ایسی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں جو اکثر ہماری سانسوں کی بے ترتیبی کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی حال ہمارے اردگرد جابجا ہمیں نظر آتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ نفسیاتی رویے آخر ہیں کیا؟ اور کیسے یہ پروان چڑھتے ہیں؟ ہمیں کیوں ان رویوں کا ادراک نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں ایسے معاشرتی مسائل میں دھکیل دیں گے جن سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا؟

بنیادی طور پر ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی اداکاری کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی کی طرف جارہا ہے۔ خاندانی نظام پہلے ہی ریخت کا شکار ہے۔ ہم نے اب مزید خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے ایک دوسرے کو تنہا کرنا شروع کردیا ہے۔ بنی نوع انسان میں ایک خطرناک رجحان پنپنا شروع ہوچکا ہے کہ ہم صرف اچھے وقت کے ساتھی ہیں۔ ہم غمگساری بھی اس وقت تک کرتے ہیں جب تک ہمیں بدلے میں کچھ نہ کچھ حاصل ہونے کی امید باقی ہو۔ ہم کسی کو اپنا کندھا صرف اس وقت تک دینا چاہتے ہیں جب وہ اس لمحے کا مادی فائدہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور اپنی دانست میں آپ یہ مخلوق کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ دراصل یہ منافقت کی ایک اعلیٰ مثال ہوتی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں آسودہ حال افراد کے گرد ایک ہجوم رہتا ہے۔ آسودگی میں اگر انسان کو کچھ مشکل کا سامنا بھی ہو تو غمگساروں کی ایک بہت بڑی تعداد منتظر ہوتی ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ مشکل اس آسودہ حال شخص کو زیادہ دیر پریشان نہیں کرے گی۔ اور آسودگی کے سفر پر دوبارہ گامزن ہوگا تو ہمیں کچھ نہ کچھ تو صلہ دے گا ہی۔ یعنی ہم صلے کی امید میں ایک ناٹک کرتے ہیں، ساتھ دینے کا۔ ڈھونگ رچاتے ہیں ہمدردی کا۔ لیکن حقیقت میں ہم صرف اپنا مفاد حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ہمیں انفرادی طور پر تباہ کررہا ہے بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کی اکائیوں کو بھی ایک دوسرے سے دور کررہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرے کی بنیادیں اس دوغلے رویے سے ہلنا شروع ہوچکی ہیں۔ ہم غفلت میں سوئے ہیں کہ اگر معاشرہ اپنی ان بنیادوں پر کھڑا نہ رہ سکا تو ہمیں کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

آپ واقعی کسی ایسی مشکل کا شکار ہوجائیں کہ جو معاشرتی طور پر آپ کےلیے مسائل پیدا کردے۔ ضروریات زندگی کا حصول آپ کےلیے آسان نہ رہے۔ آپ ایک قدم آگے بڑھائیں تو دو قدم مزید پیچھے آجائیں۔ تو ایسے حالات میں آپ کے اردگرد موجود ہجوم، جو بظاہر ہمیشہ آپ سے ہمدردی کا ناٹک کرتے رہے ہوں، وہ چھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ دن نہیں گزرتے، بلکہ لوگ آپ کو مشکل میں چھوڑ کر آپ کے پاس سے گزرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جن لوگوں سے آپ کو امید ہوتی ہے کہ ساتھ کھڑے ہوں گے، وہ ایک بول ہمدردی کا بھی بولنا گوارا نہیں کرتے۔ مشکل وقت میں آپ کی امیدیں و توقعات بہت کم ہوجاتی ہیں۔ لیکن جن سے یہ وابستہ ہوں وہ یہ کم توقعات اور امیدیں بھی پوری کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ آپ کو امید ہوتی ہے کہ فلاں آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا مشکل میں، اور وہی آپ سے دور جا کھڑا ہوتا ہے۔ آپ توقع رکھتے ہیں کہ فلاں مدد تو دور، ہمدردی کا ایک بول کم از کم بول دے گا۔ لیکن وہ ایک ہمدردانہ جملہ ادا کرنے کے بجائے آپ کو نظر انداز کرنا شروع ہوجائے گا۔

لیکن ایسے کڑے وقت میں چند سرپھرے ہر قیمت پر آپ کا ساتھ دینے کو شاید تیار ہوجائیں۔ شاید کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اب ایسے سرپھرے بہت نایاب ہوتے جارہے ہیں جو کسی کا ساتھ دینے کےلیے اپنی ذات تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اور حقیقت میں ایسے سرپھرے ہی آپ کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ زندگی میں ایسے ہی لوگ قدر کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن ہم بھلا کب سوچنے کی زحمت کرتے ہیں، مشکل ہٹنے کے بعد پھر اپنے گرد ہجومِ منافقاں جمع کرلیتے ہیں۔

ہمیں بنیادی طور پر اپنی زندگی کو ایک مسلسل درسگاہ کی طرح ہی جگہ دینی چاہیے۔ مسلسل سیکھنے کے عمل کو اپنانا چاہیے۔ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو ٹھہرنے کی جگہ دیجیے جو مشکل وقت میں آپ کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ ایسے نایاب لوگوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ ہمارے خلوص کے قابل ٹھہریں جو تمام تر مشکلات کے باوجود ہمیں بیچ منجدھار تنہا نہیں چھوڑتے۔ مشکلات کو ہمیں بنیادی طور پر مستقبل کےلیے مشعل راہ بنانا مقصود ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی سے باعزت طور پر رخصت کردیجیے جو مشکل وقت میں اپنا چہرہ پھیر لینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں۔ جو لوگ مشکل کے کچھ لمحات آپ کے ساتھ رہنا گوارا نہیں کرتے وہ آسانی کے دور میں آپ کے ساتھی ہونے کا حق نہیں رکھتے۔ عقل و دانش کو اپنے فیصلوں میں بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کی مشکلات میں اپنی آئندہ زندگی کو سنوارنا ہی ظاہر کرتا ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔

مشکلات میں ثابت قدم رہنا، حوصلہ نہ ہارنا، بہتری کی کوشش نہ چھوڑنا، مایوس نہ ہونا، یقینی طور پر کردار کی مضبوطی کی علامات ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی رویہ مشکل وقت میں آپ پر حاوی ہو تو پریشان نہ ہوں۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ پریشان ہوتا ہے۔ کوشش جاری رکھیے۔ آپ کی کوشش آپ کو کامیابی سے ہمکنار کردے گی۔ زندگی ایک بہت بہترین استاد ہے لیکن فائدہ اسی صورت ممکن ہوگا کہ آپ اس استاد سے کچھ سیکھنا چاہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post زندگی بہترین استاد ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

QOSHE - زندگی بہترین استاد ہے - شاہد کاظمی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زندگی بہترین استاد ہے

8 0
06.11.2023

’’آپ کن موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں؟‘‘ یہ سوال اکثر نئے لکھنے والوں سے پوچھا جاتا ہے۔

’’معاشرتی مسائل پر۔‘‘ اکثر لکھاری یہی لگا بندھا جواب دیتے ہیں۔

لیکن اگر بغور جائزہ لیجیے تو ہم میں سے بیشتر لکھاری صرف سیاست کے ہو رہتے ہیں۔ وہ سیاست سے نکلنے کو تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی معاشرتی مسائل کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

نفسیاتی رویے، ایک ایسا موضوع ہے جس پر آپ لکھنا شروع کریں تو صفحات کم محسوس ہوں گے۔ کیوں کہ ہمارے معاشرتی مسائل میں سے بیشتر کی وجہ ہمارے رویے ہی ہیں۔ اور مزید نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ ہم ان رویوں کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ان سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ یعنی ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے ’’سب اچھا ہے‘‘ کا تصور مضبوط کرتے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم ایک ایسی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں جہاں سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ ہم وقت سے پہلے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ خاندان ہم سے مطمئن نہیں ہوتا۔ یار دوستوں کے گلے شکوے بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہمارے رویے میں تلخی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ہم ایسی تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں جو اکثر ہماری سانسوں کی بے ترتیبی کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی حال ہمارے اردگرد جابجا ہمیں نظر آتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ نفسیاتی رویے آخر ہیں کیا؟ اور کیسے یہ پروان چڑھتے ہیں؟ ہمیں کیوں ان رویوں کا ادراک نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں ایسے معاشرتی مسائل میں دھکیل دیں گے جن سے نکلنا ہمارے بس میں نہیں ہوگا؟

بنیادی طور پر ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی اداکاری کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہر گزرتے........

© Express News (Blog)


Get it on Google Play