الیکشن 2024ء کے بارے میں ابہام پیدا کرنے والے ناکام ہو چکے ہیں۔ الیکشن ہونے جارہے ہیں ابہام کے بادل مکمل طور پر چھٹ چکے ہیں۔ الیکشن نظام کے تسلسل کے لئے اور نظام مملکت کی سلامتی کے لئے ضروری ہے دشمن اس محاذ پر شکست کھا چکے ہیں لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی وہ دہشت گردی کاہوا کھڑا کر کے اس میں خوب ہوا بھر رہے ہیں۔ سوشل میڈ یا خوف وہراس پھیلانے میں مصروف ہے کہ دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے کوئی بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسا کوئی وقوعہ ہونے کو ہے تاکہ انتخابات کے التوا کا بہانا مل سکے وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہو سکتی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن مہم زور پکڑ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن طے شدہ شیڈول کے مطابق معاملات آگے بڑھا رہا ہے۔ انتخابی عمل شروع بھی ہو چکا ہے، پوسٹل بیلٹ کا عمل مکمل ہو چکا ہے، الیکشن مہم زور پکڑ رہی ہے، انتخابی گرما گرمی بڑھتی نظر آرہی ہے انتخابی سروے بھی ہو رہے۔ہیں گیلپ،ڈان،فافین اور دیگر ادارے سروے رپورٹیں بھی شائع کر رہے ہیں۔ عمران خان کی پی ٹی آئی، نواز شریف کی مسلم لیگ اور بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان، نواز شریف اور بلاول بھٹو کی پسندیدگی کے بارے میں ظن و تخمین سے کام لیا جا رہا ہے۔ آزاد امیدواروں کی بھرمار ہے، کچھ فی الاصل آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں، کچھ اپنی پارٹیوں سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث آزادحیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور سب سے بڑی تعدادپی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی ہے جنہیں بلے کا نشان نہیں مل سکا اور وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس دفعہ شاید سب سے بڑی تعداد آزادامیدواروں کی ہے بہرحال معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس بار ووٹ ڈالنے کے لائق اور ووٹرلسٹ میں شامل ووٹرز کی 45 فی صد تعدانو جوانوں کی ہے۔ گویا اس مرتبہ نئے، تازہ دم اور جوان عزم ووٹرز انتخابات میں اہم بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو اپنے آپ کو ایسے بھی ووٹرز کے لئے ایک آپشن کے طور پر پیش کر رہے ہیں، وہ بار بار بوڑھی سیاسی قیادت پر طنز و تشنیع کے نشتر چلا رہے ہیں حالانکہ ان کے والد بھی اسی بوڑھی قیادت کی صف میں شامل ہیں وہ پاکستان پر حکمرانی بھی کر چکے ہیں۔ ان کا دور حکمرانی مثالی ہرگز نہیں تھا کار کردگی کے حو الے سے بھی حوصلہ افزا نہیں تھا۔

پاکستان کاغزہ جنگ سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم

پھر بلاول شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی جس حکمرانی تنقید کرتے ہیں ان کی جماعت اس اتحادی حکومت کا حصہ تھی۔ بلاول بھٹو اس حکومت کا عالمی سطح پر چہرہ تھے16 ماہی دور حکمرانی میں بلاول بھٹو ہوا میں ہی سفر کرتے رہے ان کے قدم زمین پر ٹکے ہی نہیں ہیں، وہ شہباز شریف کی بلائیں بھی لیتے تھے۔ آج وہ اس دور حکمرانی کے کئے گئے فیصلوں کے منفی اثرات سے اپنے آپ کوکی طرح بری الزمہ کر سکتے ہیں لیکن وہ ایسا کر رہے ہیں انہوں نے نو جوان ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لئے پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بڑے احسن انداز میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن عمران خان اپنے ووٹرزکو یہ ہدایت دے کر کہ وہ جس نشان پر چاہیں ٹھپہ لگائیں لیکن شیر اورتیر پر ہرگز نہیں لگانا بلاول بھٹوکی سوچ کاجنازہ نکال دیا ہے۔ عمران خان نے اپنے تمام امیدواران کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ سب اتوار کو انتخابی مہم کے لئے باھر نکلیں۔ کھل کر مہم چلائیں اور جو ایسا نہیں کرے گا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے، یہ ایک بہت بولڈ قدم ہے اگر عمران خان کا یہ حکم فی الحقیقت نافذ العمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے نامزد کردہ امیدواران ہمت کر کے میدان میں نکل آئے تو الیکشن مہم کا منظر تبدیل ہو سکتا ہے جو مہم ابھی تک سرد موسم کی طرح سردہی نظر آرہی ہے دیگیں، کڑاھیاں چمچے پلیٹیں وغیرہ وغیرہ شور شرابا کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں الیکشن مہم نہ کھٹی ہے نہ میٹھی بلکہ بے مزہ اور پھیکی پھیکی اور بے رنگ نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواران کے مہم پر نکلنے کے باعث معاملات بالکل نیا اوراصلی رخ اختیار کر سکتے ہیں اگر انتظامیہ نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور جھگڑا ہو گیا تو معاملات کوئی غیر متوقع رنگ و روپ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔پی ٹی آئی 9مئی کے ہنگامے میں دہشت گردی کی تربیت یافتہ ہو چکی ہے ان کے حوصلے بھی ابھی پست نہیں نظر آ رہے۔ عمران خان ٹک ٹاک پر ایک عظیم الشان جلسہ عام بھی کر چکے ہیں جس میں 50 لاکھ شرکاء کی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے الیکشن کیلئے 30 کروڑ روپے مانگ لیے

عمران خان کا9 مئی سے پہلے کا خواتین کے نام پیغام بھی نشر کیا جا چکا ہے اسی ٹک ٹاک جلسے میں مونس الٰہی نے سپین میں بیٹھ کر خطاب فرمایا ہے۔ پی ٹی آئی اپنے ہی انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہے جس میں لاکھوں افراد شریک ہو رہے ہیں۔ گویا وہ الیکشن جیتنے کی تیاری ہی نہیں کر چکی بلکہ عمران خان وزیر اعظم بننے کی تیاری بھی کر چکے ہیں اب بس ایک کرسی کی ضرورت ہے جس پر بیٹھ کر وہ اپنی وزارت عظمی کا اعلان کر دیں۔ اس سمت میں بڑھتے ہوئے انہوں نے اپنے امیدواران کو حکم جاری کر دیا ہے کہ اتوار کو سب باہر نکلیں۔ انتخابی مہم چلائیں وگرنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ عمران خان اوران کی جماعت جدید ٹکنالوجی کوجس طرح سیاسی معاملات کو چلائے اور آگے بڑھانے کے لئے موثر انداز میں استعمال کر رہی ہے۔ کوئی اور جماعت اس کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتی،بیانیہ بنانے، اپنے فالوئرز کو جگانے اور گرمانے میں جو تراکیب پی ٹی آئی استعمال کر رہی ہے، وہ شاندار ہیں۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر بھی، اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے فعال رہنما کا کردار ادا کر رہے ہیں کہ اسی ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی نمبرون سیاسی جماعت اور عمران خان سب سے زیادہ پاپولرسیاستدان کے منصب پر فائز نظر آرہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہو چکا ہے کہ کیا الیکشن صاف شفاف ہوں گے یا نہیں؟ ان انتخابات کی کریڈیبلٹی کیاہو گی؟ کیا دنیا ان انتخابات کو قبول کرلے گی؟ پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے باعث کیا انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کے بادل طاری نہیں ہو رہے ہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خود اس کی ذمہ دار ہے۔ عمران خان کی سیاسی عدم بصیرت اور احمقانہ فیصلوں نے پی ٹی آئی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں اس کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں اور وہ ابھی تک اپنی حماقتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ باقی آنے والے دنوں میں کیا ہوگا اس کا علم تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو علم نہیں ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -         الیکشن2024 ء کے منصفانہ اور شفاف ہو نے کا مسئلہ  - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        الیکشن2024 ء کے منصفانہ اور شفاف ہو نے کا مسئلہ 

14 0
27.01.2024

الیکشن 2024ء کے بارے میں ابہام پیدا کرنے والے ناکام ہو چکے ہیں۔ الیکشن ہونے جارہے ہیں ابہام کے بادل مکمل طور پر چھٹ چکے ہیں۔ الیکشن نظام کے تسلسل کے لئے اور نظام مملکت کی سلامتی کے لئے ضروری ہے دشمن اس محاذ پر شکست کھا چکے ہیں لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی وہ دہشت گردی کاہوا کھڑا کر کے اس میں خوب ہوا بھر رہے ہیں۔ سوشل میڈ یا خوف وہراس پھیلانے میں مصروف ہے کہ دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے کوئی بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت جیسا کوئی وقوعہ ہونے کو ہے تاکہ انتخابات کے التوا کا بہانا مل سکے وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہو سکتی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن مہم زور پکڑ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن طے شدہ شیڈول کے مطابق معاملات آگے بڑھا رہا ہے۔ انتخابی عمل شروع بھی ہو چکا ہے، پوسٹل بیلٹ کا عمل مکمل ہو چکا ہے، الیکشن مہم زور پکڑ رہی ہے، انتخابی گرما گرمی بڑھتی نظر آرہی ہے انتخابی سروے بھی ہو رہے۔ہیں گیلپ،ڈان،فافین اور دیگر ادارے سروے رپورٹیں بھی شائع کر رہے ہیں۔ عمران خان کی پی ٹی آئی، نواز شریف کی مسلم لیگ اور بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔ عمران خان، نواز شریف اور بلاول بھٹو کی پسندیدگی کے بارے میں ظن و تخمین سے کام لیا جا رہا ہے۔ آزاد امیدواروں کی بھرمار ہے، کچھ فی الاصل آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں، کچھ اپنی پارٹیوں سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث آزادحیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور سب سے بڑی تعدادپی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کی ہے جنہیں بلے کا نشان نہیں مل سکا اور وہ آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس دفعہ شاید........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play