پاکستان تحریک انصاف اپنے حقیقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے سپریم کورٹ میں پارٹی کے وکلا اپنا موقف منوا نہیں سکے پوری قوم نے سارا منظر سکرین پر دیکھا بڑے بڑے نامور وکلاء عدالت کے سامنے بونگیاں مارتے نظر آئے وہ نہ تو سپریم کورٹ کے ججوں کے سوالات کے تسلی بخش جواب دے سکے اور نہ ہی مطلوبہ دستاویز سامنے لا سکے۔اکبر ایس بابر کی تحریک انصاف کی ممبر شپ کے حوالے سے مطلوبہ دستاویز عدالت میں پیش نہیں کی جا سکی۔ پی ٹی آئی کے وکلا یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات قبول کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ وکلاء نے یا تو کیس لڑنے کی تیاری نہیں کی ہوئی یا ان کی استعداد کا ربھی اوسط درجے کی ہے وگرنہ حامد خان اور علی ظفر وکلاء برادری کے محترم بڑے نام ہیں ان کا نام سنتے ہی ایک خاص قسم کی اعلیٰ کارکردگی کی توقع کی جاتی ہے لیکن دیکھنے میں ایسا نہیں ہوا۔ لطیف کھوسہ بھی بڑا نام ہے ان کی کارکردگی دیکھ کر اتنہائی ”مایوسی“ ہوئی کہ ہمارے اعلیٰ پائے کے وکلا کی اگر ایسی کارکردگی ہے تو پھر ہمارے نظام عدل پر اٹھنے والے سوالات درست ہی معلوم ہوتے ہیں۔ی ٹی آئی کا تنخواہ دار گالم گلوچ بریگیڈ حسبِ عادت و سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پرد شنام طرازی میں مصروف ہے اس سے پہلے بھی جب قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی بیگم صاحبہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی اس بریگیڈنے طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا لیکن قاضی وبیگم قاضی عیسیٰ نے الزامات کا سامنا کیا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے قائم کردہ اعلیٰ ترین بینچ کے سامنے نہ صرف الزامات کو غلط ثابت کیابلکہ اپنی بے گناہی پر مہر تصدیق ثبت کرائی۔ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت، حکومتی ادارے اور ریاستی ادارے ایک پیچ پر تھے اور وہ صفحہ قاضی فائز کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔

نیوزی لینڈ نے پاکستان کو تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں شکست دے دی

قاضی اگر چاہتے تو مستعفی ہوکراپنی مراعات لے کر سکون کی زندگی گزار رہے ہوتے لیکن انہوں نے تاریخ میں گم ہو جانے کی بجائے تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا اپنی بے گناہی ثابت کرکے انہوں نے تاریخ میں ایک روشن باب رقم کیا اب وہ تاریخ کا ایک اور روشن باب رقم کرہے ہیں۔ پی ٹی آئی مکافات عمل کا بھی شکار ہے جس طرح غیر فطری طریقے سے عمران خان اور ان کے دشنام بریگیڈ کو ایوان اقتدار میں داخل کیا گیا تھا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنما اور سیاہ باب ہے۔ پی ٹی آئی کے نا اہل و ناکارہ افراد نے 44ماہی دور حکمرانی میں پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ہماری تاریخ میں رقم ہو چکا ہے قوم ابھی تک اس دور ظلمات کے منفی اثرات کو ابھی تک بھگت رہی ہے شہاز شریف کی اتحادی حکومت کی 16ماہی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشانات ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر عمرانی دورِ حکومت جاری رہتا تو ملک دیوالگی کا شکار ہو جاتا۔ عمران خان اورپی ٹی آئی نے 16ماہ کے دوران حکومت سے باہر رہ کر جو کردار ادا کیا وہ بھی صرف مایوس کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ انہوں نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلی میں اپنی ہی حکومتوں کے ساتھ جو کھلواڑکیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین باب ہے۔ عمران خان نے سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ نہیں کیا (جیسا کہ لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں) بلکہ انہوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت نظام کے خلاف مورچہ بندی کی۔ 9,10 مئی کے واقعات اچانک ہوا و فضاء میں رونما نہیں ہوئے بلکہ منظم طریقے سے، مکمل تیاری سے،اندرونی اور بیرونی سرپرستی اور تعاون سے کئے گئے۔ریاست کو للکاراہی نہیں گیا بلکہ اس کا گربیان پکڑ کر، اسے جھنجھوڑ کر اس کے منہ پر طمانچہ مارا گیا، لیکن ریاست کی سمجھ داری اور بردباری کے باعث عمران خان حسب توقع نتائج حاصل نہ کر سکے اور جیل جا پہنچے۔ اب ان کی پارٹی شکست و تر یخت کا شکار ہو چکی ہے۔ مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہے۔

پی ٹی آئی سے جے یو آئی شیرانی گروپ کا اتحاد ختم

دوسری طرف یہ سمجھنے والے کہ عمران خان اورپی ٹی ئی مرگ مفاجات کا شکار ہو چکی ہے، درست نہیں ہے۔ عمران خان نے دو دہائیاں لگا کر بڑی محنت کے ساتھ فسق و فجور برپاکرنے والی ایک ٹیم تیار کی ہے جو اول تا آخر شیطانیت میں لتھڑی ہوئی ہے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے،اس کے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک مقتدر حلقوں سے روابطہ ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے۔پی ٹی آئی ایسے ہی ساری عملیت پاکستان دشمن ایجنڈے کے ساتھ ہوئی نظر آتی ہے عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کو بھی یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک دیومست کی شکل اختیار کرے گا۔ اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا تاثر انتہائی بلندی پر ہے ان کے مخالف نہ صرف اس کے بیانیے کا توڑ کر سکے ہیں،بلکہ اپنے ووٹرز کو بھی گرماتے اور آمادہ بیکار کرنے میں موثر نظر نہیں آرہے ہیں۔الیکشن مہم نے ابھی تک زور نہیں پکڑا، مخالفین اب تک جوڑ توڑ میں ہی مصروف ہیں نہ ن لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی، اور نہ ہی استحکام پاکستانی پارٹی و ایم کیو ایم کوئی موثر بیانیہ تشکیل دے سکے ہیں۔عوام معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔مہنگائی ایک مسئلہ ہے بجلی، گیس و پانی کی دستیابی اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ بلوں کی سختی اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔ سب سے اہم شے، عوام کی مایوسی اور مستقبل قریب میں کسی قسم کے ریلیف سے نا اُمیدی ہے عوام جاری نظام سے بالکل مایوس نظر آ رہے ہیں ان کی مایوسی، انتخابی عمل سے لا تعلقی کی صورت میں واضع ہو رہی ہے۔ الیکشن 2024ء کی صورت میں ایک موہوم سی اُمید نظر آر ہی ہے کہ شاید انتخابات کے نتیجے میں معاملات کی بہتری کا عمل شروع ہو جائے لیکن انتخابات ملتوی کرانے کی خواہشیں رکھنے والی قوتیں ابھی تک غیر فعال نہیں ہوئی ہیں ہر دن کوئی نہ کوئی ایسا وقوعہ ضرور ہوتا ہے جس سے انتخابات ہونے یا نہ ہونے کا سوال پوری شدت سے اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے اور ایسا 8فروری تک ہوتا رہے گا۔

یواے ای کی جانب سے رواں ہفتے 2 ارب ڈالر کا قرض رول اوور کیے جانے کا امکان

QOSHE -         عمران خان وتحریک انصاف کے بغیر الیکشن 2024  - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        عمران خان وتحریک انصاف کے بغیر الیکشن 2024 

8 0
17.01.2024

پاکستان تحریک انصاف اپنے حقیقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے سپریم کورٹ میں پارٹی کے وکلا اپنا موقف منوا نہیں سکے پوری قوم نے سارا منظر سکرین پر دیکھا بڑے بڑے نامور وکلاء عدالت کے سامنے بونگیاں مارتے نظر آئے وہ نہ تو سپریم کورٹ کے ججوں کے سوالات کے تسلی بخش جواب دے سکے اور نہ ہی مطلوبہ دستاویز سامنے لا سکے۔اکبر ایس بابر کی تحریک انصاف کی ممبر شپ کے حوالے سے مطلوبہ دستاویز عدالت میں پیش نہیں کی جا سکی۔ پی ٹی آئی کے وکلا یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات قبول کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ وکلاء نے یا تو کیس لڑنے کی تیاری نہیں کی ہوئی یا ان کی استعداد کا ربھی اوسط درجے کی ہے وگرنہ حامد خان اور علی ظفر وکلاء برادری کے محترم بڑے نام ہیں ان کا نام سنتے ہی ایک خاص قسم کی اعلیٰ کارکردگی کی توقع کی جاتی ہے لیکن دیکھنے میں ایسا نہیں ہوا۔ لطیف کھوسہ بھی بڑا نام ہے ان کی کارکردگی دیکھ کر اتنہائی ”مایوسی“ ہوئی کہ ہمارے اعلیٰ پائے کے وکلا کی اگر ایسی کارکردگی ہے تو پھر ہمارے نظام عدل پر اٹھنے والے سوالات درست ہی معلوم ہوتے ہیں۔ی ٹی آئی کا تنخواہ دار گالم گلوچ بریگیڈ حسبِ عادت و سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پرد شنام طرازی میں مصروف ہے اس سے پہلے بھی جب قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی بیگم صاحبہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی اس بریگیڈنے طوفان بدتمیزی برپا........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play