سینٹ کے 14 اراکین ایوان میں بیٹھے تھے ایک نے قرار داد پیش کی چیئرمین نے بغیر کسی قاعدے کلیے کے قراد دار پرووٹنگ کرائی۔ دو نے مخالفت کی۔ دونے کچھ نہیں کیا اس طرح قرارداد بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائی۔ سینٹ کے قواعد کے مطابق قرار داد پیش کرنے کے طریقے کو فالو نہیں کیا گیا۔کورم بھی پورا نہیں تھا لیکن قرار داد ایسے پیش کئی گئی جیسے کہیں ایمر جنسی لگی ہوئی ہے۔ اگلے دن قومی میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور نمائندوں نے بیک زبان ہو کر انتخابات وقت پر یعنی 8 فروری 2024ء کرانے کے حق میں بیان داغنا شروع کر دیئے۔ قرارداد کے ذریعے تا ثریہ پیدا ہوا کہ کچھ قوتیں یا حلقے انتخابات موخر کرانے کے لئے مصروف عمل ہیں ویسے یہ تاثرنہیں بلکہ حقیقت بھی ہے کہ ایک عرصے سے انتخابات کے حوالے سے سازشی تھیوری، چل رہی ہے کہ انتخابات سے زیادہ اہم ملک بچانا ہے۔ ملک ہوگا تو آئین پر عمل درآمد بھی ہو سکے گا۔بظاہر تو یہ بات بھلی لگتی ہے لیکن معاملہ اتنا ہی سادہ نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے۔ پاکستان پرناکامی اور نا امیدی کے گہرے بادل چھائے ہوے ہیں سیاسی ابتری کا دور دورہ ہے سیاسی ہلچل نے قومی معیشت کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ انفرادی معیشت تباہ ہو چکی ہے اس بارے میں قطعا دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ پاکستانی عوام مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ معاشی و اقتصادی نمو سکڑ چکی ہے قدر زر گھٹ گئی ہے مہنگائی زوروں پر اوربے روزگاری عام ہے آئی ایم ایف کے ساتھ بدمعاملگی نے ہمارے معاشی معاملات میں شدید بگاڑ پیدا کیا ہے ویسے شہباز شریف کی قیادت میں 16 ماہی اتحادی حکومت نے معاملات کو ٹریک پرلانے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی جس سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات ٹل گئے ہیں لیکن ٹیکسوں کی بھر مار مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے یقینی نے معاملات پر منفی جمود طاری کر رکھا ہے۔ آئینی معاملات بھی دگرگوں ہیں۔ عمران خان نے سیاسی چالبازیوں کے ذریعے سیاست کو مکمل طور پر پراگندہ کر دیا ہے۔ کے پی کے اور پنجا ب کی نگران حکومتیں مدت ہوئی اپنا آئینی و قانونی استحقاق حکمرانی کھو چکی ہیں، لیکن وہ قائم ہیں۔ مرکزی حکومت آئین میں درج 90 روز میں انتخاب کرانے کی پابندی کو بھی ہوا میں اڑاچکی ہے۔ سپریم کورٹ کی کاوشوں اور صدارتی حکمت عملی کے باعث 8 فروری 2024ء کو انتخابات کرانے پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے اس حکم کے مطابق انتخابی عمل کو طے شدہ پلان کے مطابق آگے بڑھا رہا ہے طے شدہ تواریخ کے مطابق، قدم بقدم آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں لیکن مخالف قوتیں بھی ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

یمنی زیدی ٹی شرٹ چوم کر مداحوں کی طرف پھینکنے پر تنقید کی زد میں

دیکھنے میں تحریک انصاف انتخابات کرانے کے لئے صف اول میں کھڑی نظر آرہی ہے لیکن عمران خان کی عدلیہ کو مختلف درخواستوں کو دیکھتے ہوئے ایسے لگتا ھے کہ عملاً وہ انتخابات روکنے یا موخر کرنے کی کاوشیں کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ایسے ہی طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے پہلے لیول پلیئنگ فیلڈ کا واویلا کرتے ہوئے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوششیں کرتی رہی تھی، اب وہ انتخابات کے حق میں شور مچاتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے منتخب کردہ چیئرمین سینٹ نے جو کچھ کیا ہے اس سے ظاہرہو رہاہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی چاہتی ہے کہ انتخابات موخر ہو جائیں۔ سینیٹ کی قراداد کے بعد الیکشن بارے منفی تاثر میں گہرائی پیدا ہوگئی ہے۔ ایک طرف ملک کی سیاسی قیادت کی اکثریت، بلکہ غالب اکثریت نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق فروری میں الیکشن انعقاد کی کھل کھلا کر حمایت کی جو کسی حد تک سیاسی قیادت کی بلوغت کو ظاہر کرتا ہے لیکن دوسری طرف الیکشنوں کے موخر کرنے کی باتیں بھی بلند آہنگ میں شروع ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بڑی جرات اور استدلال کی قوت سے انتخابات موخر کرانے کی باتیں کر رہے ہیں ان کے ساتھ باپ پارٹی بھی شامل ہو چکی ہے۔ دو قوتوں میں انتخابات کے نا ممکن ہونے کے بارے میں دلائل دیئے جا رہے ہیں ان دلائل میں جان بھی ہے لیکن الیکشن کرانے کے حوالے سے دلائل زیادہ موثر اور معتبر نظر آرہے ہیں ایسے ماحول میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کامستعفی ہونا بھی تشویشناک ہے ویسے تو انہوں نے اپنی نازک صحت کے پیش نظراستعفیٰ دیا ہے لیکن ایسے ماحول میں اس استعفیٰ کو الیکشن ملتوی کرانے کے حامی کسی اور انداز میں بھی پیش کر رہے ہیں۔

یو اے ای 2ارب ڈالر کا قرض رول اوور کرے،نگراں وزیراعظم نے صدر متحدہ عرب امارات کو خط لکھ دیا

کبھی کبھی الیکشن ملتوی ہوتے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔الیکشن 2024ء کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر اور اس سے 100 فی صد فائدہ حاصل کرنے والی جماعت ن لیگ ہے کیونکہ ن لیگ ہی نواز شریف کی قیادت میں ملکی باگ ڈور سنبھالنے جا رہی ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنا منشور بھی قوم کے سامنے پیش نہیں کر سکی، ابھی تک امیدواروں کا حتمی فیصلہ بھی نہیں ہو سکا،جوڑ توڑ بھی حتمی نہیں ہو سکا ہے۔ الیکشن مہم تو دور کی بات ہے ابھی تک بنیادی معاملات ہی طے نہیں پا سکے بیان بازی کی حد تک مہم چل رہی ہے۔ 10 نکاتی منشور کسی مذاق سے کم نظرنہیں آتا لیکن انہوں نے بھی ایسے ہی کہہ دیا ہے کہ 300 تک یونٹ مفت کردیں گے۔ بھلا کیسے کریں گے؟ فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ بجٹ کیسے بنے گاوغیرہ وغیرہ کچھ پتہ نہیں۔ ویسے انہیں پہلے ہی پتہ ہے کہ ہماری کون سی حکومت بننی ہے پہلے بھی شہباز شریف کے ساتھ شریک حکمرانی تھے مزے مل کر لوٹے لیکن ذمہ داری شہباز شریف اورن لیگ پر ڈال دی اب بھی انہیں معلوم ہے کہ ہم نے کسی کے ساتھ لٹک کرہی شریک سفر ہوناہے، ذمہ داری ہماری نہیں ہوگی۔ویسے اس دفعہ ممکن ہے پیپلز پارٹی سندھ میں بھی حکومت نہ بنا سکے۔فضل الرحمان تو پہلے بھی انتخابات موخر کرانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ حالات کیسے بھی ہوں، موسم کتناہی شدیدکیوں نہ ہو، دہشت گردی کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے احکامات سردست پتھرپر لکیر ہی نظر آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن بھاری مشکلات کے باوجود اعلان کردہ مذاق کے مطابق 4 فروری کو الیکشن کرانے جا رہا ہے۔ ویسے حتمی صور تحال کا علم تو اللہ کے سوا کسی کونہیں ہے۔

عمران خان این اے 122 سے الیکشن لڑیں گے یا نہیں؟ الیکشن ٹریبونل نے فیصلہ سنا دیا

QOSHE -       الیکشن 2024: تاثر اور حقیقت کے درمیان  - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

      الیکشن 2024: تاثر اور حقیقت کے درمیان 

4 0
10.01.2024

سینٹ کے 14 اراکین ایوان میں بیٹھے تھے ایک نے قرار داد پیش کی چیئرمین نے بغیر کسی قاعدے کلیے کے قراد دار پرووٹنگ کرائی۔ دو نے مخالفت کی۔ دونے کچھ نہیں کیا اس طرح قرارداد بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائی۔ سینٹ کے قواعد کے مطابق قرار داد پیش کرنے کے طریقے کو فالو نہیں کیا گیا۔کورم بھی پورا نہیں تھا لیکن قرار داد ایسے پیش کئی گئی جیسے کہیں ایمر جنسی لگی ہوئی ہے۔ اگلے دن قومی میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور نمائندوں نے بیک زبان ہو کر انتخابات وقت پر یعنی 8 فروری 2024ء کرانے کے حق میں بیان داغنا شروع کر دیئے۔ قرارداد کے ذریعے تا ثریہ پیدا ہوا کہ کچھ قوتیں یا حلقے انتخابات موخر کرانے کے لئے مصروف عمل ہیں ویسے یہ تاثرنہیں بلکہ حقیقت بھی ہے کہ ایک عرصے سے انتخابات کے حوالے سے سازشی تھیوری، چل رہی ہے کہ انتخابات سے زیادہ اہم ملک بچانا ہے۔ ملک ہوگا تو آئین پر عمل درآمد بھی ہو سکے گا۔بظاہر تو یہ بات بھلی لگتی ہے لیکن معاملہ اتنا ہی سادہ نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے۔ پاکستان پرناکامی اور نا امیدی کے گہرے بادل چھائے ہوے ہیں سیاسی ابتری کا دور دورہ ہے سیاسی ہلچل نے قومی معیشت کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ انفرادی معیشت تباہ ہو چکی ہے اس بارے میں قطعا دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ پاکستانی عوام مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ معاشی و اقتصادی نمو سکڑ چکی ہے قدر زر گھٹ گئی ہے مہنگائی زوروں پر اوربے روزگاری عام ہے آئی ایم ایف کے ساتھ بدمعاملگی نے ہمارے معاشی معاملات........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play