آج کا انسان حقیقت سے دور، حقیقی خوشیوں سے دور، تن آسان، تنگ دامان، ہر چیز کو فیس بُک اور انسٹاگرام پر تلاش میں سرگرداں،جب سوشل میڈیا کی دنیا کا یہ شاہسوار اپنے گر دو پیش سے لاتعلق ہو کر حقیقی خوشیوں سے کوسوں دور جا چکا، جو اس کے ساتھ بیٹھا ہے، وہ اس کا باپ ہے، دوست ہے، انیس و غمگسار بیوی یا،دِل و جان سے عزیز بچے ہیں، ان سے ہمکلام ہونے کی بجائے سوشل میڈیا پر chat میں مگن،اس حقیقی خوشی سے محروم، جو اس کی قربت میں بیٹھا شخص اسے پہنچا سکتا تھا۔ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور ہونا چاہیے کہ یہ اب اس جدید دور میں ہماری ضرورت بن چکا ہے، مگر اس میں اتنا مگن ہونا کہ حقیقی زندگی سے ہی دور ہو جاؤ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔کسی بزرگ کے ہاتھوں کا شفقت بھرا لمس، اپنے کسی بچے یا عزیز کی قربت کا نشہ،کسی ہمدم دیرینہ سے بغل گیر ہونے کا سحر، موبائل کی رنگا رنگ مصروفیات سے کہیں بہتر، دلکش اور جاں فزا ہے۔ چلیں انسان کی فکر و نظر میں کچھ کوتاہی کا اندیشہ ممکن تھا، مگر وہ سوچ تو حقیقی تھی، وہ خیالات و نظریات محض مفروضوں پر تو نہ چلتے تھے، ان میں عمل اور کارکردگی کی رمک اور چاشنی تو تھی، جو اب مصنوعی ذہانت Artificial intelligence نے چھین لی۔ اب تو ذہانت اور فطانت بھی اصلی نہ رہی۔ اب تو سوچ بھی مصنوعی اور اس پر عمل پیرا انسان بھی مصنوعی، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں، نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں۔ہم نے ترقی کے نام پر بہت سی قیمتی اور انمول روایات کا قتل کیا۔ بہت سے قیمتی رشتے کھو دیے، ویسے علامہ اقبال نے تو بہت پہلے کہا تھا، کہ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات، ہم اس سوشل میڈیا کے نشہ میں اس بری طرح گرفتار ہیں، کہ ہمارے سامنے کوئی ڈوب رہا ہو، ہم اسے بچانے کی بجائے پہلے اسکی ویڈیو بناتے ہیں۔ کسی گاڑی کا حادثہ ہو، لوگ زخمیوں کو بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنے اپنے موبائل نکال کر ویڈیوز بنا کر سب سے پہلے کریڈٹ لینے کے چکر میں سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہ کون سا کلچر ہے کہ پتنگ بازی کے ناروا جنون میں کٹی گردن کو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔ فوت شدہ بندہ کی تصویریں اور نومولود کی گیلی گیلی فوٹو شیئر کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ہم نے اپنے ہاتھوں سے وہ سب کچھ ختم کر دیا،جو کبھی ہمارے لئے باعث فخر و انبساط ہوا کرتا تھا۔ہماری بڑی خوبصورت اخلاقی اور معاشرتی روایات تھیں۔ اب تو ہماری خوشیاں بھی مصنوعی اور ہمارے غم بھی غیر فطری۔ ہماری عبادات بھی روح سے خالی اور ہمارے معاملات بھی خالصتاً مادیت کی لپیٹ میں۔ ہماری سیاست تضادات کا شکار اور باہمی سر پھٹول میں مگن، ہماری اخلاقیات کا بھرکس سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی زبان سے مترشح۔ کچھ تو ہو، جو باعث وجہ اطمینان ہو، کچھ تو آسودگی کا سبب ہو۔ کبھی موسیقی سے دل بہل جایا کرتے تھے وہ بھی اب ٹک ٹاکرز کے ہاتھوں میں رسوا ہو رہی ہے۔رہی سہی کسر چاہت علی خاں کے سروں نے نکال دی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اسے موسیقی کہیں یا موسیقی کا نوحہ۔موسیقی کے ساتھ نو آموز گلو کاروں کی چھیڑ خوانی تو سنی تھی مگر کلاسیکل موسیقی کے ساتھ سوشل میڈیا پر یہ چاہت والی واردات بھی ہو جائے گی اسکا تصور بھی نہیں تھا۔ موجودہ دور کی ایک خوبی یا خامی یہ بھی ہے کہ اس میں ہر کوئی کسی نہ چیز کا ایکسپرٹ ہونے کا دعویٰ دار ہے۔ اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک معمول نظر آتا ہے۔ لوگ زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ جلد ناراض اور دیر سے راضی ہوتے ہیں۔اب تو دوستوں میں وہ قہقہے بھی ناپید ہوگئے یا ان کی گھن گرج ماند پڑ گئی۔لوگ شاید ہنسنا بھی بھول گئے ہیں، جذبوں میں وہ حرارت نہ رہی، تراوٹ نہ رہی، ملنساری نہ رہی، ملنے کی بے قراری نہ رہی، تعلقات میں گرمجوشی نہ رہی،دلوں میں وسعت نہ رہی، مسکراہٹوں میں اپنائیت نہ رہی، رویوں میں عاجزی ختم ہوگئی، قریبی دوستوں اور عزیزوں کی وفات پر بھی انا للہ لکھ کر واٹس اپ گروپ میں ڈال کر فریضہ سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ کسی کے پاس وقت نہیں اور کرنے کو کام بھی نہیں۔ سب کچھ تو سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سوشل میڈیا نے ہماری سوشل لائف کے تضادات کو ننگا کر دیا ہے۔ سچے جزبے ماند پڑ گئے،معاشرہ کا مصنوعی پن غالب آ گیا۔ اور واقعی حقیقت خرافات میں کھو گئی۔

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب کی دبئی میں سرمایہ کاروں سے ملاقات ،مالی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال

QOSHE -  حقیقت خرافات میں کھو گئی - عابد قریشی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 حقیقت خرافات میں کھو گئی

20 0
24.04.2024

آج کا انسان حقیقت سے دور، حقیقی خوشیوں سے دور، تن آسان، تنگ دامان، ہر چیز کو فیس بُک اور انسٹاگرام پر تلاش میں سرگرداں،جب سوشل میڈیا کی دنیا کا یہ شاہسوار اپنے گر دو پیش سے لاتعلق ہو کر حقیقی خوشیوں سے کوسوں دور جا چکا، جو اس کے ساتھ بیٹھا ہے، وہ اس کا باپ ہے، دوست ہے، انیس و غمگسار بیوی یا،دِل و جان سے عزیز بچے ہیں، ان سے ہمکلام ہونے کی بجائے سوشل میڈیا پر chat میں مگن،اس حقیقی خوشی سے محروم، جو اس کی قربت میں بیٹھا شخص اسے پہنچا سکتا تھا۔ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور ہونا چاہیے کہ یہ اب اس جدید دور میں ہماری ضرورت بن چکا ہے، مگر اس میں اتنا مگن ہونا کہ حقیقی زندگی سے ہی دور ہو جاؤ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔کسی بزرگ کے ہاتھوں کا شفقت بھرا لمس، اپنے کسی بچے یا عزیز کی قربت کا نشہ،کسی ہمدم دیرینہ سے بغل گیر ہونے کا سحر، موبائل کی رنگا رنگ مصروفیات سے کہیں بہتر، دلکش اور جاں فزا ہے۔ چلیں انسان کی فکر و نظر میں کچھ کوتاہی کا اندیشہ ممکن تھا، مگر وہ سوچ تو حقیقی تھی، وہ خیالات و نظریات محض مفروضوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play