پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے مقروض ممالک میں ہوتا ہے۔ جون 2023ء میں مجموعی طور پر 223.86 ارب ڈالر کا قرض واجب الادا تھا یعنی غیر ملکی اور اندرونی قرضوں کا حجم 224ارب ڈالر کے برابر تھا۔ یہ پاکستانی کرنسی میں 62ہزار 881 ارب روپے کے مساوی تھا۔ اس مجموعی قرضے میں 24ہزار309ارب روپے اندرونی ذرائع سے جبکہ بقایا 38ہزار572 ارب روپے بیرونی ذرائع سے حاصل کردہ ہیں قومی قرضہ ہماری مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) کے 74.3 فیصد کے مساوی بنتا ہے۔

ہمارے پاس قرض کی تفصیلات جاننے کے لئے 2006ء تا دسمبر 2023ء کے اعداد و شمار دستیاب ہیں جن کے مطابق 2006ء میں پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم صرف 37.2ارب ڈالر تھا جو بڑھتے بڑھتے دسمبر 2023ء میں 131.2ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے یعنی اس وقت ہم 131.2 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کے دین دار ہیں جبکہ ہمارے خزانے میں جب ڈالر 6یا 7ارب تک پہنچتے ہیں تو ہم خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 101ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط وصول ہوئی ہے تو ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔ ہمارے حکمران، سیاسی اور وردی والے جاتے تو عمرہ کرنے ہیں لیکن جب بادشاہ یا اس کے ولی عہد بیٹے سے ملاقات ہوتی تو اسے اللہ اور رسولؐ کے در پر حاضری سے بڑی سعادت سمجھتے ہوئے تصاویر چھپواتے ہیں اور اگر وہ بھولے سے بھی کہہ دیں کہ ہمیں پاکستان کی مشکلات کا احساس ہے اس لئے ہم تمہیں کچھ رقم عنایت کر دیں گے تو یہاں ہمارے ہاں لڈیاں پڑنے لگ جاتی ہیں اور اگر کوئی سعودی وزیر شزیر قدم رنجا فرمالے تو وہ دن ہمارے لئے عیدسعید بن جاتا ہے ایسا ہی کچھ متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور دیگر عربی ممالک کے حکمرانوں اور وزیروں کے پاکستان کے دوروں کے مواقع پر ہوتا ہے۔ ہمارے ایک پیارے وزیراعظم تو اپنی ایسی ہی ایک مہارت کے بارے میں فخریہ اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتے کہ انہیں عربوں سے مدد مانگنے اور حاصل کرنے میں یدطولیٰ حاصل ہے۔ وہ ایسا جھوٹ بھی نہیں کہتے ہیں وہ ترلا ہی کچھ اس ادا سے ڈالتے ہیں کہ مخیر عرب حکمرانوں کا دل پسیچ جاتا ہے اور پھر وہ ہمارے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔

پاکستان کو بیلسٹک میزائلوں کے آلات فراہم کرنے کے الزام میں 4 کمپنیوں پر امریکی پابندیاں لگ گئیں

فروری 2024ء کے حتمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے واجب الادا بیرونی قرضے 42ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جبکہ یہ صرف دو مہینے پہلے دسمبر 2023ء میں 38ارب ڈالر سے تھوڑے ہی زائد تھے یعنی دو مہینوں میں 4ارب ڈالر سے زائد قرضے حاصل کئے گئے ہیں اگر اسی شرح سے قرض بڑھتا گیا تو دسمبر 2024ء تک قرضوں میں اضافہ کتنا ہوشربا ہو چکا ہو گا اور واجب الاداقرضوں کا حجم کتنا پھیل جائے گا۔ ہم جس انداز میں قرض پر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ ہمارے ذہن میں ان قرضوں کی واپسی بارے میں کوئی دھیان یا خیال بھی نہیں ہے۔ ہم یہ سوچ کر قرض پر قرض لیتے چلے جا رہے ہیں کہ ہم نے کون سا واپس کرنا ہے کہ ہمیں قرض لیتے وقت کچھ سوچ و بچار کرنی چاہیے۔

ایران ، اسرائیل کشیدگی اور کئی سوالات

اس وقت ہمارے قومی معاشی معاملات میں سب سے مشکل اور بگاڑ کا شکار یہی قومی قرض کا مسئلہ ہے یہ بگاڑ اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں اور معاملات کو ٹھیک کرنے والے ذمہ داران کے فکر و عمل پر جمود طاری ہو چکا ہے اعصاب شل ہو چکے ہیں کسی کے پاس قرض کے مسائل سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ یا طریقہ موجود نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشی معاملات بھی اپنے قرض خواہوں کی مرضی کے تابع کر دیئے ہیں وہی ہماری معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں وہی حکمت عملیاں طے کرتے ہیں۔ہم مجبور محض بن کر ان پر عمل درآمد کرتے ہیں۔

اصفہان کی سیٹلائٹ تصاویر سے نقصان واضح نہیں: امریکہ

قرض خواہ کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ قرض دار کو قائم رکھتا ہے کیونکہ اسی میں اس کی جیت ہوتی ہے اگر قرض دینے والا ڈیفالٹ کر جائے تو پھر قرض وصول کرنے والا تو فارغ ہو جاتا ہے اس لئے قرض خواہ، بڑے اخلاص سے قرض دار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی کچھ عالمی ساہو کار ادارے پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پاکستان عملاً قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے یعنی ڈیفالٹ کر چکا ہے لیکن عالمی زری ادارے اسے قائم رکھنے، معاشی طور پر جاری و ساری رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک مدت ہوئی پاکستان قرض کی ادائیگی / واپسی کے لئے نیا قرضہ حاصل کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا رہا ہے۔ یعنی قرض کی واپسی، نیا قرض حاصل کر کے“۔یہ پالیسی اب مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے۔ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے دکانداروں کو قابو کرنے کے اعلان کاری ایکشن بھی آنے لگا ہے۔ تاجر تنظیموں نے ٹیکس نیٹ میں آنے سے انکار کر دیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے ہاتھوں ادھموئے ہو چکے ہیں ان کی حالت قابل رحم حد تک برباد ہو چکی ہے ان میں تو اب احتجاج کی سکت بھی نہیں رہی ہے، انہیں حالات مکمل طور پر مخدوش نظر آ رہے ہیں بہتری کی امید بھی نہیں ہے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟

دوسری طرف حکمران اور ذمہ داران طبقات ہیں ان کے چال چلن ناقابل بیان حد تک بے رحم ہو چکے ہیں۔ خزانے میں تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ سرکاری گاڑیوں کے ٹائروں کی تبدیلی پر اگر پنجاب حکومت کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے تو کے پی حکومت نئی گاڑی کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوئے ہر گز سوچ و بچار نہیں کرتی ہے۔ سیاستدان ہوں یا حکمران اور سرکاری افسران، سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس عوام کے لئے بہتری کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ غور و فکر کی ذمہ داری ہمارے عالمی قرض خواہوں نے لے رکھی ہے۔ ہم موج مستی کررہے ہیں۔ قرضے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ہم مزید قرضے لئے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ ہم نے کون سا قرضہ واپس کرنا ہے۔ قرض خواہ بھی مطمئن ہیں کہ ہم نے انہیں نچوڑنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ وہ اپنے معاملات، اپنے طریقوں سے نبھائے چلے جارہے ہیں۔ باقی رہے عوام تو انہیں دو وقت کی نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کی فکر کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ملک چلے نہ چلے، یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ویسے ہمیں کسی نہ کسی حد تک یقین ہو چکا ہے کہ یہ ملک چلنے والا نہیں ہے۔ جی ہاں چلنے والا نہیں ہے۔

مانیٹری پالیسی اجلاس: 8 ممبران نے شرح سود برقرار رکھنے کیلئے ووٹ دیدیا

QOSHE - قرض پر قرض بڑھنے کی خوفناک رفتار - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

قرض پر قرض بڑھنے کی خوفناک رفتار

18 0
20.04.2024

پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے مقروض ممالک میں ہوتا ہے۔ جون 2023ء میں مجموعی طور پر 223.86 ارب ڈالر کا قرض واجب الادا تھا یعنی غیر ملکی اور اندرونی قرضوں کا حجم 224ارب ڈالر کے برابر تھا۔ یہ پاکستانی کرنسی میں 62ہزار 881 ارب روپے کے مساوی تھا۔ اس مجموعی قرضے میں 24ہزار309ارب روپے اندرونی ذرائع سے جبکہ بقایا 38ہزار572 ارب روپے بیرونی ذرائع سے حاصل کردہ ہیں قومی قرضہ ہماری مجموعی خام داخلی پیداوار (GDP) کے 74.3 فیصد کے مساوی بنتا ہے۔

ہمارے پاس قرض کی تفصیلات جاننے کے لئے 2006ء تا دسمبر 2023ء کے اعداد و شمار دستیاب ہیں جن کے مطابق 2006ء میں پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا حجم صرف 37.2ارب ڈالر تھا جو بڑھتے بڑھتے دسمبر 2023ء میں 131.2ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے یعنی اس وقت ہم 131.2 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کے دین دار ہیں جبکہ ہمارے خزانے میں جب ڈالر 6یا 7ارب تک پہنچتے ہیں تو ہم خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے 101ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط وصول ہوئی ہے تو ہمارے حکمران خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔ ہمارے حکمران، سیاسی اور وردی والے جاتے تو عمرہ کرنے ہیں لیکن جب بادشاہ یا اس کے ولی عہد بیٹے سے ملاقات ہوتی تو اسے اللہ اور رسولؐ کے در پر حاضری سے بڑی سعادت سمجھتے ہوئے تصاویر چھپواتے ہیں اور اگر وہ بھولے سے بھی کہہ دیں کہ ہمیں پاکستان کی مشکلات کا احساس ہے اس لئے ہم تمہیں کچھ رقم عنایت کر دیں گے تو یہاں ہمارے ہاں لڈیاں پڑنے لگ جاتی ہیں اور اگر کوئی سعودی وزیر شزیر قدم رنجا فرمالے تو وہ دن ہمارے لئے عیدسعید بن جاتا ہے ایسا ہی کچھ متحدہ عرب........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play