حالات درست نہیں ہیں۔ سیاسی ہنگامہ آرائی، ایک دوسرے کے خلاف باتیں، عمران خان کی مقاومت کی پالیسی اور انکار کی حکمت عملی اپنی جگہ درست ہوگی لیکن حکمران اتحاد کے درمیان بغض اور عناد کے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بڑی ہوشیاری اور سیاسی مکاری کے ساتھ بڑے بڑے آئینی عہدے حاصل کر لئے ہیں۔ اقتدار کے جھولے جھول رہے ہیں لیکن کابینہ میں شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ جی ہاں یہی ناں کہ معاملات ٹھیک ہونے کی توقع نہیں ہے۔ حکومتی ناکامی نظر آ رہی ہے اس لئے کابینہ میں عدم شمولیت سے، ناکامی کی ذمہ داریوں سے بچا جائے۔ کمال نہیں کہ آپ اقتدار میں شامل ہو رہے ہیں لیکن اس کے اچھے بُرے نتائج کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہیں، ویسے ہماری رائج الوقت سیاست میں اسے کامیاب سیاست کہتے ہیں ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ اسے بھی کہتے ہیں۔ پھر دیکھئے فیصل واؤڈا، مسلم لیگ کے قائد محمد نوازشریف پر سرعام تنقید ہی نہیں تنقیص بھی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں ایک دفعہ نہیں، بار بار،کئی بار وہ کھلے عام نوازشریف کے خلاف بدزبانی و بدکلامی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے فیصلہ کن ووٹوں سے وہ سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔ اس کا کیا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے، تاثر کیا پیدا ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دلائل ہوں گے، اس حرکت کے حق میں وجوہات ہوں گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اتحادی اخلاص سے عاری نظر آ رہے ہیں۔ ویسے پیپلزپارٹی تو عمران خان سے ہاتھ ملانے اور حکومت سازی میں دلچسپی رکھتی تھی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے عمران خان کا کہ جنہوں نے وضاحت اورصراحت کے ساتھ آصف علی زرداری کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف کااظہار کرتے ہوئے بڑھتے ہوئے ہاتھ جھٹک دیئے۔ پھر زرداری صاحب کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا کھیل کھیلیں۔ انہوں نے یہ کھیل خوب کھیلا۔ اب حالت یہ ہے کہ حکومت کی ناکامی اور نامرادی کے چرچے عام ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ،تاثر یہی ہے کہ معیشت کہیں بھی ٹھیک ہونے نہیں جا رہی ہے۔ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔بہتری کے امکانات کم ہیں۔ یہ بات وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف بھی کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔ معاشی بحالی کا ایک نیا پیکیج لینے کے لئے ابتدائی بات چیت ہو بھی چکی ہے لیکن اس دفعہ مزید مشکل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ عوام کو ذہنی طور پر مزید معاشی مشکلات برداشت کرنے، ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانے اور مہنگائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔

بدبو دار پودے کے سبب پارک عوام کے لیے بند کردیا گیا

تاثر یہی ہے کہ حکومت ناکام ہونے جا رہی ہے۔ الیکشن 2024ء نے عدم استحکام کو ہوا دی ہے جو یہ کہا جا رہا تھا کہ فریش مینڈیٹ کے ذریعے مستحکم حکومت قائم ہو گی اور ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا، غلط ثابت ہو رہا ہے۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست اور انکار کی حکمت عملی رنگ دکھا رہی ہے۔ عدلیہ میں بھی معاملات بگاڑ کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ عدلیہ، عدلیہ سے انصاف کی طلبگار نظر آ رہی ہے۔ جسٹس جیلانی جیسے پاکباز، صاف، شفاف کیئرئیر کے حامل قاضی القضاء کو بھی زچ کرکے میدان سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اصول پسندی پر بھی سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں وہاں خیر کی روشنی دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ شرکا اندھیر ابڑھتا ہی نظر آ رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں روشنی کے چراغ نہیں بلکہ الاؤ دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ گزرے دنوں میں سٹاک مارکیٹ کی بڑھوتی نئی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نظر آئی۔ انڈکس 68ہزار کی تاریخی نفسیاتی حدود کو عبور کرکے نئے ریکارڈ قائم کر گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں مسلسل تیزی اور تیزی کا رجحان اس تاثر کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ معاملات درست نہیں ہیں اور حکومت ناکام ہونے جا رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ دراصل معیشت کے پیش آئندہ حالات کا بیرومیٹر ہوتا ہے، اگر حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو رہے ہوں تو اس کااظہار سب سے پہلے سٹاک مارکیٹ انڈکس میں ہوتا ہے۔ سٹاک مارکیٹ انتہائی حساس جگہ ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے جو اعلیٰ درجے کے ادارے قائم کئے ہیں ان میں اعلیٰ ترین سٹاک مارکیٹ ہے۔ اس نظام میں پیش آئندہ حالات کو سمجھنے اور ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اُتم پائی جاتی ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ نظام ہیں، تخلیق زر کے لئے سٹاک مارکیٹ ایک اعلیٰ ترین ادارہ قرار پایا ہے۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملک میں سٹاک مارکیٹ ہی معاشی سرگرمیوں کی پیمائش اور معیشت کی سمت کا تعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

اگر کوئی دہشت گرد ہمارے ملک میں کارروائی کے بعد سرحد پار کرجاتا ہے تو پاکستان میں داخل ہو کر اس کو مار دیں گے: بھارتی وزیر دفاع

ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے بحالی پیکیج کے دوسرے جائزے کے بعد پاکستان کی معاشی حکمت عملی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اورکہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بہتر انداز میں نبھایا ہے اور طے کردہ پالیسیوں کو بہتر انداز میں نافذ العمل کرکے مثبت نتائج ظاہر کئے ہیں۔ بلوم برگ نے حالیہ تجزیے میں پاکستانی معیشت کی بحالی اور گروتھ میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔ ورلڈبینک کی رپورٹ میں بھی اسی قسم کے مثبت اشاریئے ظاہر کئے ہیں۔ یہ باتیں انتہائی اہم ہیں کہ عالمی ادارے ہماری معیشت کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر مثبت انداز میں بڑھوتی ظاہر کررہے ہیں۔ مجموعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر 13.37ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ ایسا تسلسل کے ساتھ ہوا ہے جو کہ انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے 1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ ایسے تمام عناصر معیشت کے مثبت سمت کی طرف جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ہماری قومی معیشت بحالی کی طرف جانے کے لئے پرتول رہی ہے۔ تاثر تو یہی ہے آنے والے دنوں میں حقیقت کا بھی پتہ چل جائے گا۔

مبینہ طور پر رشوت لے کر 5 رکنی ڈکیت کے قاتل سرغنہ کو چھوڑ دیاگیا

QOSHE - قومی معیشت کی بحالی…… تاثر اور حقیقت - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

قومی معیشت کی بحالی…… تاثر اور حقیقت

9 0
06.04.2024

حالات درست نہیں ہیں۔ سیاسی ہنگامہ آرائی، ایک دوسرے کے خلاف باتیں، عمران خان کی مقاومت کی پالیسی اور انکار کی حکمت عملی اپنی جگہ درست ہوگی لیکن حکمران اتحاد کے درمیان بغض اور عناد کے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بڑی ہوشیاری اور سیاسی مکاری کے ساتھ بڑے بڑے آئینی عہدے حاصل کر لئے ہیں۔ اقتدار کے جھولے جھول رہے ہیں لیکن کابینہ میں شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ جی ہاں یہی ناں کہ معاملات ٹھیک ہونے کی توقع نہیں ہے۔ حکومتی ناکامی نظر آ رہی ہے اس لئے کابینہ میں عدم شمولیت سے، ناکامی کی ذمہ داریوں سے بچا جائے۔ کمال نہیں کہ آپ اقتدار میں شامل ہو رہے ہیں لیکن اس کے اچھے بُرے نتائج کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہیں، ویسے ہماری رائج الوقت سیاست میں اسے کامیاب سیاست کہتے ہیں ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ اسے بھی کہتے ہیں۔ پھر دیکھئے فیصل واؤڈا، مسلم لیگ کے قائد محمد نوازشریف پر سرعام تنقید ہی نہیں تنقیص بھی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں ایک دفعہ نہیں، بار بار،کئی بار وہ کھلے عام نوازشریف کے خلاف بدزبانی و بدکلامی کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے فیصلہ کن ووٹوں سے وہ سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں۔ اس کا کیا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے، تاثر کیا پیدا ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دلائل ہوں گے، اس حرکت کے حق میں وجوہات ہوں گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اتحادی اخلاص سے عاری نظر آ رہے ہیں۔ ویسے پیپلزپارٹی تو عمران خان سے ہاتھ ملانے اور حکومت سازی میں دلچسپی رکھتی تھی۔ وہ تو اللہ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play