بیگم: ارے سنیے تو! تین دن ہو گئے ہیں۔ اپنا ضمیر بیمار ہے۔ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس ہی لے جاتے۔

شوہر: میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ دفتر سے واپس آ کر کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔

بیگم: دفتر سے واپس آکر؟ عجیب باپ ہو تم۔ اولاد کے لائق ہی نہیں تھے تم۔ تمھیں جاب عزیز ہے لیکن ضمیر کا کچھ احساس نہیں؟

شوہر: ارے کیا ہوا بیگم؟ معیشت آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پیسے کو سلام ہے۔ ویسے بھی پریشانی کیا ہے؟ ضمیر ابھی سو رہا ہے اور اس کے جاگنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ضمیر اور جاب کا معاملہ ساتھ ساتھ چلتا رہے۔ ویسے بھی جاب کا رہنا اور پیسے کا آتا رہنا ضمیر کے لیے بہتر ہے۔ سب کچھ اسی کے لیے تو کر رہے ہیں۔ پیسا ہو گا تو اس کا مستقبل زیادہ محفوظ ہو گا۔

جرمنی نے سٹوڈنٹ ویزے کا حصول آسان کردیا

بیگم کی باتوں سے تنگ آ کر شوہر نے دفتر سے چھٹی لی اور ضمیر کو شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق کسی اونچے گھرانے سے تھا اور انھوں نے ”ضمیریات“ میں سپیشلائزیشن کر رکھی تھی۔نمبر آنے پر باپ بیٹا دونوں ڈاکٹر کے سامنے جا بیٹھے۔

ڈاکٹر: ارے یہ تو کھا کھا کر کافی موٹا ہو گیا ہے۔ آپ نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

باپ: میں اس معاملے میں بیگم کے سامنے بے بس ہوں جناب اور اوپر سے رشتہ دار، جب بھی آتے ہیں اس کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتے اور یہ تو بچہ ہے،جائز ناجائز جو بھی آتا ہے بس ”ٹھکانے“ لگاتا جاتا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ججز کو خط میں بھیجا گیا مبینہ پاؤڈر اینتھریکس کیا ہے؟

ڈاکٹر: دیکھو تو اس کا وزن کتنا بڑھ گیا ہے؟

باپ: بجا فرمایا آپ نے لیکن میں ایک باپ ہوں اور اس سے بڑھ کر میں ایک میاں بھی ہوں۔ بے شک ضمیر کا وزن بڑھ گیا ہے لیکن یہ مجھے آج بھی ”ککھوں“ سے ہولا لگتا ہے۔ جوں جوں اس کا وزن بڑھتا ہے،یہ گول مٹول اور بھی پیارا ہوتا جا رہا ہے اور میں اسے اٹھا کر ”اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال“۔

ڈاکٹر: اس کے سونے اور جاگنے کا کوئی مخصوص وقت ہے؟

باپ: یہ ”سچوئیشن“ پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے ہی سوتا ہے اور موقع کی مناسبت سے جاگتا ہے۔کبھی کبھی قتل بھی ہو جائے تو نہیں جاگتا اور کبھی کبھی سوئی گرنے سے بھی جاگ جاتا ہے اور ایسا جاگتا ہے کہ پھر پوری ریاست میرا مطلب ہے سارے گھر کو نہیں سونے دیتا۔

رکشے والے نے ڈکیتی کی کوشش پر مزاحمت کی تو ڈاکوؤں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا

ڈاکٹر: جہاں تک مجھے سمجھ آ رہی ہے ضمیر آپ کا بھی بچہ ہے لیکن ہے آپ کی بیوی یا دیگر رشتہ داروں کے کنٹرول میں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بچہ”ضمیریا“ کا شکار ہو گیا ہے۔ اس بیماری کی فی الحال چار بڑی اقسام ہیں۔ میں تعریف اور علامات گنواتا ہوں۔ آپ نے سن کر بتانا ہے کہ اس میں کون سی علامات پائی جاتی ہیں تاکہ تشخیص اور علاج کا تعین ہو سکے۔ پہلی قسم شخصی ضمیریا ہے جس میں کسی شخص کے بارے میں بات کی جائے۔ اس کی مزید تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم ”میں میں“ہے جسے اردو ادب میں ”ضمیرمتکلم“ کہا جاتا ہے اور یہ بڑی خطرناک بیماری ہے کیونکہ اس میں انسان کو اپنے سواکچھ نظر نہیں آتا۔دوسری قسم ”تو تو“ ہے جسے اردو میں ”ضمیر مخاطب‘ کہا جاتا ہے۔اس بیماری میں مریض،اگلے کا سب کچھ ہڑپنے کے درپے ہوتا ہے۔تیسری قسم ”وہ وہ“ ہے جسے اردو ادب میں ”ضمیرغائب“کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک وائرس ہے اور اس میں متکلم اور مخاطب دونوں مل کرمدعا کسی غائب یعنی تیسرے فریق پر ڈال دیتے ہیں۔ بیماری کی دوسری قسم کا نام ”موصولہ“ ضمیریا ہے جس میں ضمیر کے ساتھ جملے کا ایک ٹرک ہوتا ہے جو ”صلے“سے لوڈ ہوتا ہے اور یہ ”صلہ“ ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے۔ تیسری قسم ”استفہامیہ“ ہے۔ اس بیماری میں متکلم اپنوں پر کوئی حرف نہیں آنے دیتا۔اس بیماری کے شکار انسان کا”استفہام“ بھی اپنوں کی خاطر ہوتا ہے اور ضرورت پڑے تو وہ اپنوں کی خاطروہ اپنے پیارے استفہام کو ”افہام و تفہیم“ کی خوب صورت پوشاک پہنا دیتا ہے۔ جہاں یہ دونوں کام نہ کریں وہاں مریض اپنے ضمیر کو جگا دیتا ہے۔ چوتھی قسم ”اشارہ“ کی ہے جس میں صرف اشارے دیے جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیں آپ کے بیٹے میں کون سی علامات پائی جاتی ہیں؟

عادل درانی نے راکھی ساونت سے شادی کرنے کی وجہ بتادی

باپ: ڈاکٹر صاحب! میرے ضمیر میں تو یہ سبھی علامات پائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر: اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ گھر میں ایک ایسا کمرہ بنائیں جو بیوی اور رشتہ داروں کی پہنچ سے دور ہو۔ ساتھ ہی ایک بورڈ بھی بنوا لیں جس کی ایک طرف لکھا ہو کہ ”ضمیر سو رہا ہے اسے ڈسٹرب مت کریں“جبکہ دوسری طرف یہ لکھا ہو کہ ”ضمیر جاگ رہا ہے اسے ڈسٹرب مت کریں“۔ موقع کی مناسب سے بوڑد بدل دیا کریں۔رفتہ رفتہ باقی بیماریاں ختم ہو جائیں گی اور صرف ”موصولہ“ نامی ضمیریا رہ جائے گا جس کا صلہ اچھا خاصا ہو گا اور کافی کچھ موصول ہو گا۔

نریندر مودی پر بھی وہی الزام لگا دیا گیا جو عمران خان اپنے مخالفین پر لگاتے تھے

QOSHE -  ضمیر کو سونے دو ........ ! - کوثر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 ضمیر کو سونے دو ........ !

12 0
03.04.2024

بیگم: ارے سنیے تو! تین دن ہو گئے ہیں۔ اپنا ضمیر بیمار ہے۔ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس ہی لے جاتے۔

شوہر: میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ دفتر سے واپس آ کر کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔

بیگم: دفتر سے واپس آکر؟ عجیب باپ ہو تم۔ اولاد کے لائق ہی نہیں تھے تم۔ تمھیں جاب عزیز ہے لیکن ضمیر کا کچھ احساس نہیں؟

شوہر: ارے کیا ہوا بیگم؟ معیشت آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ پیسے کو سلام ہے۔ ویسے بھی پریشانی کیا ہے؟ ضمیر ابھی سو رہا ہے اور اس کے جاگنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ضمیر اور جاب کا معاملہ ساتھ ساتھ چلتا رہے۔ ویسے بھی جاب کا رہنا اور پیسے کا آتا رہنا ضمیر کے لیے بہتر ہے۔ سب کچھ اسی کے لیے تو کر رہے ہیں۔ پیسا ہو گا تو اس کا مستقبل زیادہ محفوظ ہو گا۔

جرمنی نے سٹوڈنٹ ویزے کا حصول آسان کردیا

بیگم کی باتوں سے تنگ آ کر شوہر نے دفتر سے چھٹی لی اور ضمیر کو شہر کے سب سے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق کسی اونچے گھرانے سے تھا اور انھوں نے ”ضمیریات“ میں سپیشلائزیشن کر رکھی تھی۔نمبر آنے پر باپ بیٹا دونوں ڈاکٹر کے سامنے جا بیٹھے۔

ڈاکٹر: ارے یہ تو کھا کھا کر کافی موٹا ہو گیا ہے۔ آپ نے اس طرف دھیان........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play