بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھا دی گئی ہیں۔ یہ عمل اتنی دفعہ ہو چکا ہے، تسلسل کے ساتھ اور قلیل مدت میں ہوا ہے اس لئے عامتہ الناس اس کے عادی سے ہو گئے ہیں ان کے لئے اب قیمتیں بڑھنا کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ ان کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں اور وسائل اتنے گھٹ چکے ہیں کہ انہیں زندگی گزارنے کی امید ہی نہیں رہی ہے۔ زندگی بس جیسے تیسے گزررہی ہے گزرتی رہے گی۔ زندگی گزارنے کی امیدیں ختم ہو چکی ہیں، تمنا ہی نہیں رہی کہ زندگی کیسے گزاری جائے۔

ایک عرصہ تک ہمیں بتایا جاتا رہا کہ نوازشریف، زرداری اور دیگر روایتی سیاستدان ہمارے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ قومی سطح کی سیاسی قیادت کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کاوشیں کی گئیں اور ایک نئی طاقتور، بے داغ شخصیت کو قومی منظر پر چمکانے اور جگمگانے کی شعوری کاوشیں کی گئیں۔ عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر مشہور کیا جانے لگا۔ ریاستی ادارے اس کی ساخت پرداخت میں مصروف ہو گئے۔ غیر ملکی فنی ماہرین بھی شامل کئے گئے۔ عمران خان کی شخصیت کے گرد عظمت و شوکت کا ایک حالہ تعمیر کرنے میں ریاستی و غیر ریاستی، سب وسائل بروئے کار لائے گئے۔ ویسے عمران خان کی شخصیت پہلے بھی ایک قومی ہیرو کے طور پر ملک میں معروف تھی۔ شوکت خانم کے قیام سے انہوں نے اپنی شخصیت میں چارچاند لگا دیئے تھے پھر ریاستی و غیر ملکی وسائل کے درست استعمال کے ذریعے انہیں ایک سیاست دان، انقلابی ریفارمز کے طور پر پیش کیا جانے لگا حتیٰ کہ 2011ء میں مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کے ذریعے عمران خان کو باقاعدہ طور پر لانچ کر دیا گیا۔ ایک لیڈر کے طور پر،ایک عظیم سیاستدان کے طور پر، ایک حکمران کے طور پر ان کا راستہ ایوانِ اقتدار کی طرف جاتا نظر آنے لگا۔

جرمنی نے سٹوڈنٹ ویزے کا حصول آسان کردیا

عمران خان بلاتعطل لمبی تقریر کرنے پر قدرت رکھتے ہیں بطور کھلاڑی ان کا سانس خاصا مضبوط ہے۔ وہ ورزش کرتے ہیں، دوڑ لگاتے ہیں، متوازن خوراک استعمال کرتے ہیں، اپنی صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں، وہ لمبی تقریر کر سکتے ہیں بغیر وقفہ لئے، بغیر تھکے بولتے رہنا اور بولتے ہی چلے جانا ان کی شخصیت کا خاصا بن چکا ہے۔ وہ اپنے سننے والوں پر گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔ اپنے طویل تقریری کیریئر کے دوران انہوں نے نہ صرف عوام کے مسائل کی حقیقی نشاندہی کر دی۔ عوام کو صاف صاف ان کے مسائل سے آگاہ کر دیا،بلکہ ان مسائل کے ذمہ داروں کی نشاندہی بھی کر دی۔ مسائل تو سب کے سامنے ہیں۔ ہر شخص کو روزانہ کی بنیادوں پر بیان کردہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے نشاندہی کرنا کوئی بہت انوکھا کام نہیں ہے جو عمران خان نے سرانجام دیا ہے۔ اصل بات ان مسائل کی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین کرنا، نشاندہی کرنا، کھلے عام ان کی طرف اشارہ کرنا اہم ہے، جو عمران خان نے باالصراحت کر دیا۔ معروف سیاسی خانوادوں کی طرف اشارے کرکے بار بار عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول کروا کروا کر انہیں ملزم نہیں مجرم کے طور پر ثابت کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ عمران خان کا زورِ خطابت اور مقتدرہ کے تعاون کے باعث سیاست میں ایک ایسی وسیع خلیج پیدا ہو چکی ہے جس کا کریڈٹ صرف اور صرف عمران خان کو جاتا ہے۔ عمران خان کو مقتدرہ نے نوازشریف و ہمنوا سیاستدانوں کو اقتدار کی ریس سے باہر کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ہماری فوج، آئی ایس آئی، عدلیہ، صحافت اور عمران خان نے مل جل کر قومی سیاستدانوں کو ذلیل و رسوا کیا ان کا اعتبار ختم کیا۔ عمران خان مقتدرہ کے کندوں پر سوار ہو کر 2018ء میں برسراقتدار ہوئے۔ انہوں نے اقتدار میں آکر جس پستی فکر و عمل کا مظاہرہ کیا وہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم باب ہے44ماہی دور حکمران کے خاتمے کے بعد عمران خان نے عوامی مسائل کے اصلی اور کلیدی جزو کی طرف نہ صرف انگلی اٹھائی بلکہ اس کا گریبان بھی پکڑ لیا۔ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ عمران خان کی اسی پالیسی کا حصہ اور نتیجہ تھا کہ معاملات کے بگاڑ کے اصلی سبب پر گرفت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب عمران خان کٹہرے میں ہیں اور جن کو عمران خان کرپٹ، چور، قومی مسائل کے ذمہ دار ثابت کر چکے ہیں،اقتدار میں ہیں لیکن اقتدار پر ان کی گرفت موثر نظر نہیں آ رہی ہے۔ 44ماہی عمرانی اقتدار کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی اتحادی حکومت نے 16مہینوں کے دوران عوامی معیشت کے ساتھ جو کچھ کر دیا وہ بھی ایک اہم تاریخی داستان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے پہلے عمران خان معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لیجا چکے تھے ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا، سی پیک کی تعطلی کے باعث چین سے تعلقات میں سردمہری آ چکی تھی۔ ڈونلڈ لوکیس کے باعث امریکی ہم سے ناراض تھے۔ سعودی عرب، ترکیہ، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات اور دیگر برادر ممالک کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی زرعی و مالیاتی اداروں نے ہمارے ساتھ تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ قومی معیشت جان بلب تھی لیکن پی ڈی ایم اتحادی حکمرانوں نے مل جل کر قومی معاملات کو سدھارنے کی کاوشیں کیں لیکن ایسی کاوشوں کے نتیجے میں عوامی معیشت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ عوام کو الیکشن 2024ء کے پیچھے لگا دیا گیا کہ فریش مینڈیٹ کے ذریعے نئی حکومت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر ے گی لیکن ایسی تمام امیدیں بھی نقش برآب ثابت ہو چکی ہیں۔ چھ جماعتی مخلوط حکومت ابھی تک عوامی معاشی قتلِ عام کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی ہے۔ مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ معاشی سرگرمیاں جمودکا شکار ہیں۔ انرجی سیکٹر کا بحران انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ گردشی قرضہ انتہائی خطرناک سطح تک بڑھ چکا ہے۔ قومی قرضہ بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ حکمرانوں کے پاس ٹیکس بڑھانے اور مزید قرضہ لئے جانے کے علاوہ کوئی قلیل یا طویل مدتی حکمت عملی نہیں ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں ججز کو خط میں بھیجا گیا مبینہ پاؤڈر اینتھریکس کیا ہے؟

عمران خان حسبِ تربیت اور افتادِ طبع سیاستدانوں، حکمرانوں اور مقتدرہ کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ جاری سیاسی سیٹ اپ کو ناکام بنا دیا جائے۔ حالات اور واقعات اسی سمت بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اتحادی سیٹ اپ ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کارکردگی دکھانا بھی ممکن نظر نہیں آ رہا ہے جبکہ عمران خان پریشر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ نظام کی ناکامی کا تاثر گہرا ہوتا نظر آ رہا ہے جبکہ عمران خان کی کامیابی اور واپسی کی باتیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ عوام کی بے بسی دیدنی ہے۔

QOSHE -  مائے نیں میں کینوں آکھاں  - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

 مائے نیں میں کینوں آکھاں 

8 0
03.04.2024

بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ایک بار پھر بڑھا دی گئی ہیں۔ یہ عمل اتنی دفعہ ہو چکا ہے، تسلسل کے ساتھ اور قلیل مدت میں ہوا ہے اس لئے عامتہ الناس اس کے عادی سے ہو گئے ہیں ان کے لئے اب قیمتیں بڑھنا کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ ان کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں اور وسائل اتنے گھٹ چکے ہیں کہ انہیں زندگی گزارنے کی امید ہی نہیں رہی ہے۔ زندگی بس جیسے تیسے گزررہی ہے گزرتی رہے گی۔ زندگی گزارنے کی امیدیں ختم ہو چکی ہیں، تمنا ہی نہیں رہی کہ زندگی کیسے گزاری جائے۔

ایک عرصہ تک ہمیں بتایا جاتا رہا کہ نوازشریف، زرداری اور دیگر روایتی سیاستدان ہمارے مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ قومی سطح کی سیاسی قیادت کو عوام کی نظروں سے گرانے کی کاوشیں کی گئیں اور ایک نئی طاقتور، بے داغ شخصیت کو قومی منظر پر چمکانے اور جگمگانے کی شعوری کاوشیں کی گئیں۔ عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر مشہور کیا جانے لگا۔ ریاستی ادارے اس کی ساخت پرداخت میں مصروف ہو گئے۔ غیر ملکی فنی ماہرین بھی شامل کئے گئے۔ عمران خان کی شخصیت کے گرد عظمت و شوکت کا ایک حالہ تعمیر کرنے میں ریاستی و غیر ریاستی، سب وسائل بروئے کار لائے گئے۔ ویسے عمران خان کی شخصیت پہلے بھی ایک قومی ہیرو کے طور پر ملک میں معروف تھی۔ شوکت خانم کے قیام سے انہوں نے اپنی شخصیت میں چارچاند لگا دیئے تھے پھر ریاستی و غیر ملکی وسائل کے درست استعمال کے ذریعے انہیں ایک سیاست دان، انقلابی ریفارمز کے طور پر پیش کیا جانے لگا حتیٰ کہ 2011ء میں مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کے ذریعے عمران خان کو باقاعدہ طور پر لانچ........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play