محترمہ مریم نواز صاحبہ!

پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر مبارک باد قبول کریں اور اس کے ساتھ ساتھ چند ایک گزارشات ہیں۔ اگر ممکن ہو تو اس جانب نگاہ دوڑائیے ان شاء اللہ بہتری آئے گی۔ ہم نے تو ہر موقع پر آپ لوگوں کا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کے خلاف اٹھنے والے گھٹیا پروپیگنڈا کا شافی علاج کیا۔ اس میں ہماری کوئی غرض مقصود نہیں تھی بلکہ مقصود صرف یہی تھا کہ ہم خلوص دل سے آپ کی جماعت کو پاکستان کی ترقی کی ضامن سمجھتے تھے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کیونکہ حقیقت ہے بھی یہی کہ اگر پاکستان سے نواز شریف کو مائنس کر دیا جائے توپیچھے کھنڈرات ہی بچتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ضمنی باتیں تھیں، اب بڑھتے ہیں اصل مسئلے کی جانب اور وہ مسئلہ ہے سرکاری سکولوں کا۔

لاہور میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار امریکی شہری صبوحی انعام رہائی کے بعد امریکہ پہنچ گئیں

جناب وزیراعلیٰ صاحبہ!

پاکستان میں سرکاری سکولوں کی تباہی کا سفر مشرف دور سے شرو ع ہواجس کی کمان پنجاب میں پرویز الہی کے ہاتھوں میں تھمائی گئی۔’مار نہیں پیار“ کی حسین چھتری کے سائے تلے بربادی کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ سزا کہیں مروج ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کا نہ تو کوئی ایسا مذہب ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہے جہاں سزا کا تصور نہ ہو۔ ترغیب اور تربیت کا تصور، دنیا کے ہر ملک میں توازن قائم کرنے کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کیونکہ انسان کی فطرت دو طرح سے ہی کام کرتی ہے۔ کچھ لوگ ترغیب سے راہ راست پر لائے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ترغیب کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ انھیں تربیت کے نسخے سے مطلوبہ مقاصد کی طرف لایا جاتا ہے اور بسا اوقات سزا بھی دی جاتی ہے جو سزا دینے والے کے لیے نہیں بلکہ سزا پانے والے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے باقی افراد کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ آپ نے وہ قصہ تو سنا ہو گا کہ قاتل بیٹے کی پھانسی کا وقت قریب آیا تو ماں رونے لگی۔ بیٹے نے ماں کو روتا دیکھا تو کہنے لگا کہ اس کی ذمہ دار بھی آپ ہی ہیں۔ جس دن میں نے ہمسائے کا بازو توڑا تھا، کا ش اس دن آپ نے میرا دفاع کرنے اور میرا حوصلہ بڑھانے کی بجائے مجھے ایک زوردار تھپڑ لگا دیا ہوتا تو آج مجھے کسی کی گردن توڑنے کی ہمت نہ پڑتی۔ مشرف اور پرویز الہی دور میں ظلم یہ ہوا کہ استاذ کسی صورت بھی اپنے شاگرد کو ہوم ورک یا سبق یاد کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک استاد سے یہ ضرور پوچھا جاتا تھا کہ فلاں طالب علم نے ہوم ورک کیوں نہیں کیا، فلاں نے سبق یاد کیوں نہیں کیا یا فلاں بچہ فیل کیوں ہو گیا ہے؟ ان تمام صورتوں میں سزا استاد کو دی جاتی تھی۔ یوں تعلیم کی بے قدری سے والدین پریشان ہوئے اور انھوں نے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں میں دخل کرانا شرو ع کر دیا۔ اس طرح سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔

جہاز پورا بھر چکا تھا اور وقت مقررہ پراُڑا،باہرجھانکا تو سورج پوری توانائیاں بکھیر رہا تھا لیکن سفید بدلیاں نا جانے کس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھیں

محترمہ مریم نواز صاحبہ!

بربادی کے اس سفر میں تھوڑا وقفہ اس وقت آیا جب پنجاب میں آپ کے چچا آئے۔ اگرچہ انھوں نے مذکورہ پالیسیوں کو جاری رکھا لیکن کچھ اچھے اقدامات بھی کیے مثلاً سالوں سے خالی آسامیوں کو پر کیا، سکولوں میں فنڈ دیے اور دیگر سہولیات بھی دیں جس سے سرکاری سکولوں کا گراف اونچا جانے لگا۔ لیکن اس کے بعد پروجیکٹ عمران لانچ کیا گیا جس نے اپنے گرو پرویز مشرف کی یاد تازہ کر دی۔ اساتذہ ریٹائر ہوتے رہے اور کچھ فوت ہوتے رہے لیکن ان کے چارسالہ دور میں ایک بھی نیا ٹیچر بھرتی نہیں ہوا۔ یوں عمران نے سکولوں کو ”مشرف بہ تباہی“ کرنے میں اپنا ”عمراندارانہ“ کردار خوب نبھایا۔

ان افراد یا خیالات کی تلاش میں رہیے جو آپ کے خوابوں کیلئے تقویت کا باعث ہوں، ان سے بچیے جو آپ کے خواب چکنا چور کر دیں

محترمہ وزیراعلیٰ صاحبہ!

کوئی مانے یا نہ مانے، ہمیں یہیں لگتا ہے کہ ہر حکومت سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں سے بھی جان چھڑانا چاہتی ہے کیونکہ یہاں سے آمدن ٹکے کی نہیں جبکہ پیسا لگانا خوب پڑتا ہے۔ آج کا یہ کالم بطور خاص آپ کی توجہ اس جانب دلانا مقصود تھا کہ یہاں سے بھی آمدن کا خاطر خواہ بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ سرکاری سکولوں کو ماضی کی طرح ایک مثال بنایا جا سکتا ہے لیکن میرا آج کا موضوع صرف آمدن کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔ زیادہ تر سرکاری سکول سڑکوں کے کنارے انتہائی اہم کاروباری جگہ پر واقع ہیں۔ ان کی لمبی لمبی باؤنڈری والز ہیں جو سڑک کے کنارے طویل حد تک پھیلی ہوئی ہیں جن کے پیچھے کافی خالی جگہ موجود ہے۔ آپ بس اتنا کام کریں کہ ان دیواروں کو گرا کر کمرشل پلازے بنا دیں۔ کافی ساری دکانیں بنا کر ان کے کرائے سے متعلقہ سکول کا سارا نہیں تو دو تہائی حصہ ضرور نکالا جا سکتا ہے۔ ایک کام یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کچھ نجی اداروں مثلاً بینکوں کو اس بات کا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ آپ یہی بلڈنگز کرائے پر حاصل کریں اور بھی کئی ایک کام ہیں لیکن یہ کام ایسا ہے جس سے پڑھائی کا عمل بھی متاثر نہیں ہو گا اور آمدن کا خاطر خواہ انتظام بھی ہو جائے گا۔

پاکستان آنے پر سخت پریشانیوں اور الجھنوں کا سامناکرنا پڑا، لیکن مواقع ملنے کے باوجود کبھی امریکہ میں مستقل قیام نہ کرنے پر پچھتاوا نہیں ہوا

محترمہ جناب مریم نواز صاحبہ!

میں نے ریلوے کی بہتری کے لیے بھی ایک جامع پلان دیا تھا لیکن چونکہ پاکستان میں کام نہیں بلکہ نام دیکھا جاتا ہے لہذا ان تجاویز کو بھی ردی کی توکری میں پھینک دیا گیا۔ سکولوں کی آمدن کے لیے اس تجویز پر عمل کر کے دیکھیں، کافی سارا پیسا بچا کر دیگر فلاحی مقاصد کے لیے بچایا جا سکتا ہے۔

QOSHE -           سرکاری سکول بنام مریم نواز صاحبہ! - کوثر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          سرکاری سکول بنام مریم نواز صاحبہ!

12 0
13.03.2024

محترمہ مریم نواز صاحبہ!

پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر مبارک باد قبول کریں اور اس کے ساتھ ساتھ چند ایک گزارشات ہیں۔ اگر ممکن ہو تو اس جانب نگاہ دوڑائیے ان شاء اللہ بہتری آئے گی۔ ہم نے تو ہر موقع پر آپ لوگوں کا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر مسلم لیگ کے خلاف اٹھنے والے گھٹیا پروپیگنڈا کا شافی علاج کیا۔ اس میں ہماری کوئی غرض مقصود نہیں تھی بلکہ مقصود صرف یہی تھا کہ ہم خلوص دل سے آپ کی جماعت کو پاکستان کی ترقی کی ضامن سمجھتے تھے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کیونکہ حقیقت ہے بھی یہی کہ اگر پاکستان سے نواز شریف کو مائنس کر دیا جائے توپیچھے کھنڈرات ہی بچتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ضمنی باتیں تھیں، اب بڑھتے ہیں اصل مسئلے کی جانب اور وہ مسئلہ ہے سرکاری سکولوں کا۔

لاہور میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار امریکی شہری صبوحی انعام رہائی کے بعد امریکہ پہنچ گئیں

جناب وزیراعلیٰ صاحبہ!

پاکستان میں سرکاری سکولوں کی تباہی کا سفر مشرف دور سے شرو ع ہواجس کی کمان پنجاب میں پرویز الہی کے ہاتھوں میں تھمائی گئی۔’مار نہیں پیار“ کی حسین چھتری کے سائے تلے بربادی کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ سزا کہیں مروج ہو یا نہ ہو لیکن دنیا کا نہ تو کوئی ایسا مذہب ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہے جہاں سزا کا تصور نہ ہو۔ ترغیب اور تربیت کا تصور، دنیا کے ہر ملک میں توازن قائم کرنے کے لیے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play