آصف علی زرداری ایوانِ صدر میں براجمان ہو چکے ہیں سیاسی قد کاٹھ کے اعتبار سے بھی اور سیاسی فہم و فراست کے لحاظ سے بھی آصف علی زرداری، قصرِ صدارت کے شایانِ شان شخصیت ہیں ان کے ساتھ منسوب غیر مصدقہ اطلاعات سے قطع نظر، وہ ایک منجھے ہوئے بزرگ سیاست دان ہیں، جنہوں نے پاکستان کی نامور محترم اور قد آور بینظیر بھٹو کے ساتھ رہ کر سیاسی تربیت حاصل کی پھر ان کی شہادت کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کو جس انداز میں زندہ و پائندہ رکھا وہ ان کی سیاسی لیاقت اور فہم و فراست کا ثبوت ہے اب پیپلز پارٹی جس طرح قومی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی ہے یہ آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ بلاول بھٹو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر اپنا آپ منوارہے ہیں اِس بات کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ نوجوان سیاستدان کچھ نہیں ہے، لیکن جس انداز میں نوجوان بھٹوکو عملی سیاست میں لانچ کیا گیا ہے اور 16 ماہی دورِ حکومت میں انہوں نے جس طرح کھل کھلا کر اپنے آپ کو منوایا ہے وہ آصف علی زرداری کی کامیاب حکمت عملی کے باعث ہی ممکن ہو سکا ہے کہ بلاول بھٹو صف ِ اول کے قومی سیاستدان کے طور پر اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ یہ آصف علی زرداری کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ پیپلز پارٹی دو صوبوں میں حکمران ہے مرکزمیں بھی حکمران اتحاد میں شامل اور وہ خود ریاست کے محترم ترین ایوان میں دوسری پرتبہ ابراجمان ہو چکے ہیں۔ یہ سب باتیں اچھی ہیں۔ کہنے سننے میں اچھی لگ رہی ہیں۔ عمران خان کی پارلیمانی شکست کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے سیاسی استحکام کا تاثر دیا تھا پی ڈی ایم کی 12جماعتیں اور 13ویں پیپلز پارٹی نے مل کر قومی معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو سہارا دیا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بگڑتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی کامیاب کاوشیں کیں۔

لاہور میں 9 مئی کے واقعات میں گرفتار امریکی شہری صبوحی انعام رہائی کے بعد امریکہ پہنچ گئیں

اتحادی حکومت کے سولہ ماہ کے دوران سیاسی استحکام کا تاثر پیدا ہوا تھا جسے معاشی بہتری کا ذریعہ بنایا گیا اتحادی حکومت نے قومی معیشت کو بیک ٹوٹریک تو ڈال دیا، لیکن ایسی کاوشوں نے شخصی و عوامی معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ معاشی حالات اس قدر بگڑتے چلے گئے کہ عام آدمی زندہ درگور ہو چکا ہے۔ قدر زر میں پستی اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بلندی نے معاملات دِگرگوں کر دیئے ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث صنعتی پیداوار کا چلتا پہیہ بھی رک چکا ہے۔ برآمدات کی منڈی میں پاکستانی مصنوعات مقابلہ نہیں کرپا رہی ہیں ایک طرف بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ اور دوسری طرف بلند نرخوں نے مل جل کر پیداواری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے معاشی نمو سکڑ چکی ہے،بیروزگاری عام ہے،تجارت اور ادائیگیوں کا توازن شدید بگاڑ کا شکار ہے۔ حکومتی ذرائع آمدنی بھی سکڑ چکے ہیں۔ ایک عرصے سے جاری حکومتی نالائقیوں اور نا اہلیوں کے باعث سرکاری ادارے نقصانات کا شکار ہیں۔ایسے ادارے جو حکومتی آمدنی کا ذریعہ ہونے تھے وہ سبسڈی لے کر چل رہے ہیں پاکستان ریلویز، سٹیل ملز، پی آ ئی اے وغیرہ جیسے نفع آور ادارے شدید خسارے میں چل رہے ہیں انہیں زندہ رکھنے کے لئے حکومت کو اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔دوسری طرف توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ہمارے حکمران اور پالیسی ساز اس حوالے سے مجبور محض بنے بیٹھے ہیں ان میں سے کسی کے پاس خسارے کو روکنے یاکم کرنے کی کوئی سکیم یا حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ خسارہ ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہے۔ قیمتیں بھی بڑھائی جارہی ہیں۔

جہاز پورا بھر چکا تھا اور وقت مقررہ پراُڑا،باہرجھانکا تو سورج پوری توانائیاں بکھیر رہا تھا لیکن سفید بدلیاں نا جانے کس منزل کی تلاش میں سرگرداں تھیں

ہماری غیر ہموار سفارتی حکمت عملیوں کے باعث، فارن ڈانٹریکٹ انویسٹمنٹ بھی رکی ہوئی ہے سرمایہ دار آمادہ نظر نہیں آ رہے۔سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث معاشی نمو گھٹ چکی ہے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے،بلکہ پہلے سے موجود مواقع بھی گھٹتے چلے جارہے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے کہا جاتا رہا ہے کہ الیکشن 2024ء سیاسی استحکام لائے گا اور پھر ملک میں معاشی ترقی کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے کچھ سینئر سیاستدان اور دانشور کہتے رہے ہیں کہ الیکشن 2024ء سیاسی عدم استحکام لائیں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد معاملات میں سلجھاؤکی بجائے الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے ریاست کو للکارنے والے جو رکے ہوئے تھے،وہ فعال اور متحرک ہوتے نظر آئے اور انتخابات کے بعد وہ پوری جرأت اور قوت کے ساتھ نظام اورحکومت کے خلاف متحرک ہو چکے ہیں۔ ریاست اعلانات کے باوجود بے بس نظر آ رہی ہے، جبکہ 9 مئی کے ملزمان خوف وہراس کی کیفیت سے باہر نکل رہے ہیں۔پی ٹی آئی اکیلی تھی اب اس کے ساتھ دیگر کئی سیاستدان بھی کندھے سے کندھا ہے ملائے کھڑے ہیں۔ حیران کن بات کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی پی ٹی آئی کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔جماعت اسلامی بھی نوحہ کناں ہے۔ سندھ کا ہاری آپ بھی انتخابی عمل پر شکوک وشبہات کا اظہار کر چکا ہے۔ویسے تو ایک طرف انتخابات کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ وزراء اعلیٰ، وزیراعظم صدرِ مملکت اپنے اپنے عہدوں کے حلف لے چکے ہیں۔سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہی پارلیمنٹ مکمل ہو جائے گی اور نظام طے شدہ انداز اور رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا نظر آئے گا، لیکن دوسری طرف سیاسی استحکام کا تاثر پید ا ہوتانظر نہیں آرہا۔ انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت سڑکوں پر ہے اور وہ پورے عمل پر خط تنسیخ پھیرنے پر تلی بیٹھی ہے اس نے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو قرض نہ دیا جائے۔ عمران خان امریکہ سے بھی درخواست کر چکے ہیں نہ مشکوک انتخابی عمل کے بارے میں کچھ کرے یہ الگ بات تھے کہ دونوں نے ہی عمران خان کے اس مطالے کو یکسر مسترد کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات آگے بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن عمران خان جو پہلے مزاحمتی سیاست میں اکیلے تھے، اب انتخابات کے بعد انہیں اور ہمنوا بھی مل چکے ہیں مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی، قوم پرست جماعتیں ان کی حلیف بن چکی میں عمران خان اپنی مزاحمتی سیاست سے ایک قدم بھی پیچھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ان افراد یا خیالات کی تلاش میں رہیے جو آپ کے خوابوں کیلئے تقویت کا باعث ہوں، ان سے بچیے جو آپ کے خواب چکنا چور کر دیں

QOSHE -         سیاسی استحکام کے بغیرمعاشی کامیابی - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        سیاسی استحکام کے بغیرمعاشی کامیابی

18 0
13.03.2024

آصف علی زرداری ایوانِ صدر میں براجمان ہو چکے ہیں سیاسی قد کاٹھ کے اعتبار سے بھی اور سیاسی فہم و فراست کے لحاظ سے بھی آصف علی زرداری، قصرِ صدارت کے شایانِ شان شخصیت ہیں ان کے ساتھ منسوب غیر مصدقہ اطلاعات سے قطع نظر، وہ ایک منجھے ہوئے بزرگ سیاست دان ہیں، جنہوں نے پاکستان کی نامور محترم اور قد آور بینظیر بھٹو کے ساتھ رہ کر سیاسی تربیت حاصل کی پھر ان کی شہادت کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کو جس انداز میں زندہ و پائندہ رکھا وہ ان کی سیاسی لیاقت اور فہم و فراست کا ثبوت ہے اب پیپلز پارٹی جس طرح قومی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی ہے یہ آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ بلاول بھٹو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر اپنا آپ منوارہے ہیں اِس بات کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ نوجوان سیاستدان کچھ نہیں ہے، لیکن جس انداز میں نوجوان بھٹوکو عملی سیاست میں لانچ کیا گیا ہے اور 16 ماہی دورِ حکومت میں انہوں نے جس طرح کھل کھلا کر اپنے آپ کو منوایا ہے وہ آصف علی زرداری کی کامیاب حکمت عملی کے باعث ہی ممکن ہو سکا ہے کہ بلاول بھٹو صف ِ اول کے قومی سیاستدان کے طور پر اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ یہ آصف علی زرداری کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ پیپلز پارٹی دو صوبوں میں حکمران ہے مرکزمیں بھی حکمران اتحاد میں شامل اور وہ خود ریاست کے محترم ترین ایوان میں دوسری پرتبہ ابراجمان ہو چکے ہیں۔ یہ سب باتیں اچھی ہیں۔ کہنے سننے میں اچھی لگ رہی ہیں۔ عمران خان کی پارلیمانی شکست کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے سیاسی استحکام کا تاثر دیا تھا پی ڈی ایم کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play