کہانی بھی وہی ہے اور ویرانی نہیں بھرتی
پرانی کہانی ہے کہ کسی شہر میں جب تخت و تاج سنبھالنے کے قابل کوئی نہ رہا تو شہر کے دانا لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگلی صبح جو بھی شہر میں داخل ہو گا۔ اسی کے سر پر تاج رکھ دیا جائے گا۔اسے دانائی سمجھیے یا غداری؟ ایک شخص نے کبوتر کے ذریعے ساتھ والے شہر کے شہزادے کو پیغام بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ علی الصبح ادھر کا رخ کرے۔دوسرے نے ایک اور ملک کے وزیر زادے کو یہ پیغام بھجوایا اور اشرفیوں کی بوری کمائی۔ کسی نے درویش کو لبادہ پہن کر شہر میں داخل ہونے کی تلقین کی۔ یہ کہانی اتنی سادہ نہیں تھی، جس میں بیرونی حملہ آوروں کو گھی سیدھی انگلی سے نکالنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ جدید دور میں پرانی کہانیاں اس طرح پھیلیں اور ان کی تفہیم کے اتنے زاویے ابھرے کہ انسانی شعور بھی بہتے بہتے اپنا رستہ بھول گیا۔ چھلنی میں اتنے سوراخ نہیں تھے جتنے دروازے شہر کی بوسیدہ دیوار میں رکھے گئے تھے۔ اب بغیر چھنے آٹے کی موٹی روٹیوں کی طمع کا رواج تھا۔جن کے ذریعہ شہر میں داخل ہونا آسان تھا لیکن اس سے ایک پریشانی ہوئی۔ کچھ لوگ تو چھن کر داخل ہوئے اور ان کی تربیت، تہذیب، شعور اور تجزیاتی صلاحیتوں کو جلا ملی۔ لیکن وہ لوگ جو........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website