گھر پہنچا، ٹی وی آن کیا تو حیوانیت نیوز پر تحریک تاریک کی کور کمیٹی کے دو ارکان پریس کانفرنس کر رہے تھے۔لمبی پریس کانفرنس میں سے چند ایک دانے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ یہ گفتگوصرف ”اہل أکل“ حضرات کے لیے ہے۔

شعور خان: میرا نام شعور خان ہے۔میں صرف شعور ہی نہیں بلکہ اپنے ”مرشد“ کا مان بھی ہوں۔ میں منشور خان کو جوتی برابر بھی نہیں سمجھتا۔ اس سے پہلے میں صرف بڑوں کے پاس ہوتا تھا لیکن پھر مرشد نے مجھے ”چھوٹوں“ کی نذر کر دیا۔ یہ سب میرے مرشد کی کرم نوازی ہے اور ان کی ”رحونیاتی تباہ قت“ ہے ورنہ ”میں اس کرم کے کہاں تھا قابل“۔ پہلے زمانے کے مرشد، شعور کے مطابق چلتے تھے لیکن میں مرشد کے مطابق چلتا ہوں۔ پہلے زبانیں میرے تابع ہوتی تھیں لیکن اب میں مرشد کے تابع ہوں۔ جدھر میرے مرشد کی زبان جاتی ہے، میں بھی ادھر ہی جاتا ہوں۔ میرا مرشد کہے کہ پاکستان میں بارہ موسم ہیں تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ قرآن مجید میں فلاں پیغمبر کا ذکر ہی نہیں ہے تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ قیام کے وقت پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ تھی تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ سپیڈ کی لائٹ ہوتی ہے تو شعور اسی کانام ہے اور اگر مرشد کہہ دے کہ جاپان اور جرمنی کا بارڈر ایک تھا تو شعور اسی کا نام ہے۔ مرشد کی باتوں کو نہ ماننے والے پٹواری ہیں۔ میرا مرشد ”موری“ والی قمیص پہن لے تو یہی تہذیب کہلائے گی اور میں ”لیرو لیر“ ہو کر بھی مرشد کے گن گاؤں گا۔ یہ میرے مرشد کی ”رحونیاتی“ طاقت کا فیض ہے کہ اس نے مجھے نیا جیون دان کیا ہے۔میری طاقت نے سب کچھ اتھل پتھل کر دیا ہے۔مرشد کا جھنڈا لگانے پر جھگڑا ہوا اور باپ نے بیٹے کو گولی مار دی، بیٹا اپنے سگے باپ کو پاگل، بیوقوف اور پٹواری کہہ رہا ہے، ماں اپنی نوجوان بیٹی کو منع کر رہی ہے لیکن بیٹی ناچ ناچ کر آزاد ہونا چاہتی ہے،بحث ہوتی ہے اور دوست اپنے دوست کو گولی ما دیتا ہے، باپ کہہ رہا ہے کہ اگر مرشد کہے تو اس کے ایک اشارے پر اپنے اس بچے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دوں، کوئی حسرت سے کہہ رہا ہے کہ کاش نادرا اجازت دے تو میں اپنے باپ کی ولدیت کے خانے میں مرشد کا نام لکھوا دوں،دن بھر کمانے والا باپ گھر داخل ہوتا ہے اور چاسالہ تباہی کا رونا روتا ہے تو موبائل پر ”مصروف“ بیتا سر اٹھا کر نعرہ لگاتا ہے کہ ”ہم کوئی غلام ہیں“۔اس بات میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ ”فیض“ مرشد کا ہے یا مرشد ”فیض“ ہے لیکن دونوں کی ”تباہ قت“ کا زمانہ معترف ہے۔

ہمیں کراچی میں امن قائم کرنے کی سزا مل رہی ہے: مصطفیٰ کمال

منشور خان:میرا نام منشور خان ہے۔ ہم سب کا ٹارگٹ ”حقیقی آزادی“ ہے۔الیکشن کا سیزن ہے۔ جسے دیکھو ”منشور منشور“ کا نعرہ لگا رہا ہے۔کوئی روٹی،کپڑے اور مکان کا نعرہ لگا رہا ہے۔کوئی کہہ رہا ہے کہ میں نے موٹر ویز،ہسپتال، سکول، کالج، یونیورسٹیاں بنائیں،بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی،نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں باہر بھیجا، ان میں لیپ ٹیپ تقسیم کیے، دشمن کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کیے وغیرہ وغیرہ لیکن میرے پاکستانیو!یہ بھی کوئی منشور ہیں؟ اصلی منشور تو میں ہوں۔میں جب مارکیٹ میں آتا ہوں تو باقی منشور چھپ جاتے ہیں۔ امریکا کے پٹھو اور غلام کیا جانیں کہ منشور کس بلا کا نام ہے؟ میں نے اپنے مرشد کا منشور خان ہوں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ہم اقتدار میں آکر پرانی تختیوں کو اکھاڑ کر ان کی جگہ نئی تختیاں لگائیں گے، مختلف رفاہی تنظیموں کے لنگر خانوں کا نئے سرے سے افتتاح کریں گے، بچا کھچا کشمیر بھی دیں گے اور دشمن وار کرے گا لیکن ہم اسے چائے پلائیں گے۔آج کل آپ کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ وہ تو اپنے منصوبے گنوا کر ووٹ مانگ رہے ہیں، تمھارے پاس کیا ہے؟ تم کس برتے پر ووٹ مانگ رہے ہو؟دس سالوں میں کوئی ایک منصوبہ تو گنواؤ۔میں ایسی باتیں کرنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم ایسی باتیں کر کے میرے مرشد کے مریدوں کو مجھ سے دور نہیں کر سکتے۔ میرے مرشد زادو! آپ نے ان باتوں میں نہیں آنا۔ اگر وہ جان نہ چھوڑیں تو آپ نے مجھے کھولنا ہے اور پہلا صفحہ پڑھنا ہے جس میں لکھا ہوا ہے ”نک دا کوکا“۔ جونہی وہ یہ سنیں گے تو سوال کی بجائے ان کا انگ انگ ناچ کا مجسمہ بن جائے گا۔ لیکن یہ ہیں بڑے ڈھیٹ، اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو آپ نے اونچا اونچا کہنا ہے ”پروگرام تو وڑ گیا“۔ مجھے امید ہے کہ یہ سننے کے بعد وہ بھاگ جائیں۔ ایسا شاندار منشور کسی کے پاس تھا اور نہ ہی ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس منشور پر آمین کہتے ہوئے ہمیں ووٹ دیں گے اور ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ایک بار پھر اقتدار میں آ کر ہم تاریکستان کو مزید رتاریک بنائیں گے۔ تاریکی کا راج ہو گا تو شاہین شاکر کر سکیں گے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آرٹیکل ون ایف کے خاتمے پر متفق

QOSHE -            شعور خان بمقابلہ منشور خان - کوثر عباس
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           شعور خان بمقابلہ منشور خان

8 0
30.01.2024

گھر پہنچا، ٹی وی آن کیا تو حیوانیت نیوز پر تحریک تاریک کی کور کمیٹی کے دو ارکان پریس کانفرنس کر رہے تھے۔لمبی پریس کانفرنس میں سے چند ایک دانے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ یہ گفتگوصرف ”اہل أکل“ حضرات کے لیے ہے۔

شعور خان: میرا نام شعور خان ہے۔میں صرف شعور ہی نہیں بلکہ اپنے ”مرشد“ کا مان بھی ہوں۔ میں منشور خان کو جوتی برابر بھی نہیں سمجھتا۔ اس سے پہلے میں صرف بڑوں کے پاس ہوتا تھا لیکن پھر مرشد نے مجھے ”چھوٹوں“ کی نذر کر دیا۔ یہ سب میرے مرشد کی کرم نوازی ہے اور ان کی ”رحونیاتی تباہ قت“ ہے ورنہ ”میں اس کرم کے کہاں تھا قابل“۔ پہلے زمانے کے مرشد، شعور کے مطابق چلتے تھے لیکن میں مرشد کے مطابق چلتا ہوں۔ پہلے زبانیں میرے تابع ہوتی تھیں لیکن اب میں مرشد کے تابع ہوں۔ جدھر میرے مرشد کی زبان جاتی ہے، میں بھی ادھر ہی جاتا ہوں۔ میرا مرشد کہے کہ پاکستان میں بارہ موسم ہیں تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ قرآن مجید میں فلاں پیغمبر کا ذکر ہی نہیں ہے تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ قیام کے وقت پاکستان کی آبادی چالیس کروڑ تھی تو شعور اسی کا نام ہے، میرا مرشد کہے کہ سپیڈ کی لائٹ ہوتی ہے تو........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play