گزر ہو جائے میرا بھی اگر طیبہ کی گلیوں میں
یوں تو اس خاکسار کو قبل ازیں بھی حرمین شریفین کی حاضری اور دید کی سعادت نصیب ہوتی رہی، مگر اس مرتبہ دل گرفتگی کا عالم کچھ مختلف تھا۔ گھمبیر ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال، غزہ کے فلسطینیوں کی نہ ختم ہونے والی بے بسی اور مظلومیت کی دل کو ہلا دینے والی داستانیں، اپنی ذاتی عمر کے بڑھتے ہوئے ہر پل کے ساتھ اپنے گناہوں، لغزشوں اور کوتاہیوں کا ادراک، اور ان سب کے باوجود اللہ تعالیٰ کی متواتر اور اَن گنت مہربانیوں، عنایات، نعمتوں کی برسات اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرم نوازیوں پر شکر ادا کرنے کے لئے حجازِ مقدس کا سفر جو میرے لئے نصیب ہے،جس کا آغاز محسن انسانیت اور بشریت کاملہ کے اس مرقع زیبا اور پیکر حسن و جمال کی رعنائیوں سے سرشار مدینہ کی ایمان افروز اور سحر انگیز فضاؤں سے شروع ہوتا ہے۔ چشم فلک نے وہ درد ناک منظر کتنی افسردگی سے دیکھا ہو گا، کہ جب نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دوست اور ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنے آبائی گھر اور شہر کو چھوڑ کر اپنے بستر پر اپنی عزیز ترین متاع مولا علی علیہ السلام کو لٹا کر مکہ مکرمہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ان سنگلاخ اور سیاہ پتھروں پر اضطراب کی کیفیت میں سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔اِس دنیا میں شاید سب سے مشکل کام اپنا گھر بار چھوڑنا ہوتا ہے اور پھر وہ بھی کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام پہنچانے کی پاداش میں۔ کفر و الحاد میں ڈوبے مکہ اور گر دو نواح پر یہ پیغام توحید پہنچانا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website