پاکستان داخلی طور پر کمزورمنتشر اور نا امیدی کے گہرے سائے تلے کھڑا ہے سیاست میں نفرت اور دشمنی کا عنصر بدرجہ اتم پیدا ہو چکا ہے۔ ہماری مقتدرہ نے نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے لئے عمران خان کی صورت میں ایک بت تراشا جواب اپنے آپ میں ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اس نے نواز شریف اور اپنے سیاسی حریفوں کو تو جو نقصان پہنچانا تھا وہ اپنی جگہ لیکن اس نے مقتدرہ اور اپنے محسن ادارے کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے وہ ناقابل تلافی ہے تشد در گالم گلوچ اور نفرت کا جو عنصر عمران خان نے قومی سیاست اور معاشرت میں داخل کر دیا ہے اس نے جو نقصان پہنچایاہے وہ افسوسناک ہے عمران خان نے نوجوانوں میں جاری نظام کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی و بے اطمینانی کو خوب اُچھالا کسی حد تک درست بھی تھا، لیکن نظام سے نفرت اور بے زاری کے ساتھ ساتھ نئے نظام کے حوالے سے بھی محبت کے جذبات پیدا کئے جانا ضروری تھے۔ عمران خان جاری نظام کی کمزوریوں، کوتا ہیوں پر برستے رہے، نوجوانوں میں اس نظام کے بارے میں نفرت اور باغیانہ جذبات پیدا کرتے رہے، نوجوانوں کو تبدیلی کے بارے میں کہتے رہے سہانے خواب دکھاتے رہے، ریاست مدینہ کا نام لے کر ان کی تسلی وتشفی کرتے رہے لیکن جب وہ اقتدار میں لائے گئے تو انہوں نے پہلے سے جاری نظام کی کمزوریوں سے بھر پور انداز میں فائدہ اٹھایا۔ گڈگورننس کی بجائے بد ترین گورننس کی مثالیں قائم کیں 44 ماہی دور حکمرانی میں انہوں نے ملک کا بٹھا بیٹھا دیا۔ 9/10 مئی2023 ء کو ریاست پر حملہ ٓاور ہو کر انہوں نے اپنے نئیں نظام ڈھانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں آج وہ جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی بکھری ھوئی نظر آرہی ہے۔ عمران خان نے جاری نظام کی کمزوریوں کو کچھ اسی طرح عیاں کردیا ہے کہ مقتدرہ نظام کو بچانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا رہی ہے نواز شریف ایک بار پھر ملکی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے پر تول رہے ہیں 8 فروری کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن بے یقینی اور ناامیدی کی دبیر چادر اتنی ہوئی نظر آرہی ہے۔پاکستان بری طرح دہشت گردوں کے نشانے پر ہے 2021ء میں کابل پر طالبان کی حکمرانی قائم ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں تندی وتیزی دیکھنے میں آئی ہے۔تحریک طالبان پاکستان، افغان سرزمین پر مورچہ زن ہو کر پاکستان میں خونریزی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ ہمیں امید تھی کہ امریکی اتحادی فوجوں کی افغانستان سے رخصتی کے بعد طالبان کی حکومت میں،پاکستان کی شمال ومغربی سرحدیں محفوظ و مامون ہو جائیں گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا بلکہ طالبان کے دور حکمرانی میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہو گیا ہے، گزشتہ دنوں دو اعلی سطحی میٹنگزکے نتیجے میں امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید معاملات میں بہتری پیدا ہو جائے۔ قندھار کے گورنر حاجی ملا شیرین اور ملٹری انٹیلی جنس و سٹریٹجی کے ڈپٹی چیئرمین نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وزیر خارجہ پاکستان جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کی اور اس کے علاوہ پاک افغان جوائنٹ کو آرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔

موٹروے پولیس کی بڑی کاروائی ،صوابی کے قریب نان کسٹم پیڈ سامان برآمد کر لیا

یہ میٹنگ تین گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں امن و امان کا اور تجارتی معاملات کے علاوہ افغانوں کی پاکستان میں آمد و رفت کی صورتحال کے امور زیر بحث آئے افغان حکومت اپنے پالیسی بیان پر قائم نظر آتی ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی ہمسائے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ گویا ٹی ٹی پی کو افغان حکومت لگام ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے جس کی بندرگاہ نہیں ہے، افغان تجارت کا آسان ترین راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت کوا فغان تاجر ہمیشہ ناجائز طریقے سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کراچی کی بندرگاہ سے چلے کنٹینر طور خم تک پہنچ کر خالی ہو چکے ہوتے ہیں اور جو تھوڑبہت مال منزل مقصود تک پہنچ بھی جاتا ہے وہ مڑ کر واپس پاکستانی مارکیٹ میں پہنچ جاتا ہے، اس طرح افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتاہے۔دوسری طرف افغان باشندوں کی آزاد نقل و حرکت کے باعث دہشت گرد یہاں آزادانہ چلے آتے ہیں اور پاکستان کو آگ و خون میں نہلا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسا کام پہلے بھارتی سرپرستی میں ہوتا رہا ہے اب کابل کی طالبان حکومت کے زیر سایہ ہو رہا ہے۔ پاکستان نے پاک افغان بارڈر پر باڑلگاکر آزادانہ نقل و حمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے وقتا فوقتا افغانستان کی طرف سے ناکام بنانے کی کاوشیں کی جاتی ہیں۔ پاکستان نے غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اس پر بھی طالبان حکومت خوش نظر نہیں آتی۔پاکستان ڈیورنڈ لائن کے اس طرف معاملات کو سٹریم لائن کرنے کی کاوش کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادیوں نے مل جل کر اتنی قربانیاں نہیں دیں، جتنی اکیلے پاکستان نے دی ہیں ہم نے نہ صرف اپنی معیشت اور انفراسٹرکچر کی بربادی مول لی،بلکہ سماجی ابتری بھی ہمارے حصے میں آئی ہے۔ افغان حکمران پہلے بھی ہمارے دوست نہیں تھے۔ طالبان بھی دوستی کے تقاضے پورے نہیں کر رہے ہیں پاکستان بدستور لہو لہو ہے افغان طالبان، ہندوستان کے ساتھ مل کرنئے سرے سے تعمیر و ترقی کے سفر پر گا مزن ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان اب بھی خسارے میں ہے ہمیں اپنی افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی ہے۔

بابراعظم ٹی20انٹرنیشنلز میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے تیسرے بلے باز بن گئے

QOSHE -         پاکستان کی افغان پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے - مصطفی کمال پاشا
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        پاکستان کی افغان پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے

19 0
13.01.2024

پاکستان داخلی طور پر کمزورمنتشر اور نا امیدی کے گہرے سائے تلے کھڑا ہے سیاست میں نفرت اور دشمنی کا عنصر بدرجہ اتم پیدا ہو چکا ہے۔ ہماری مقتدرہ نے نواز شریف کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے لئے عمران خان کی صورت میں ایک بت تراشا جواب اپنے آپ میں ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اس نے نواز شریف اور اپنے سیاسی حریفوں کو تو جو نقصان پہنچانا تھا وہ اپنی جگہ لیکن اس نے مقتدرہ اور اپنے محسن ادارے کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے وہ ناقابل تلافی ہے تشد در گالم گلوچ اور نفرت کا جو عنصر عمران خان نے قومی سیاست اور معاشرت میں داخل کر دیا ہے اس نے جو نقصان پہنچایاہے وہ افسوسناک ہے عمران خان نے نوجوانوں میں جاری نظام کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی و بے اطمینانی کو خوب اُچھالا کسی حد تک درست بھی تھا، لیکن نظام سے نفرت اور بے زاری کے ساتھ ساتھ نئے نظام کے حوالے سے بھی محبت کے جذبات پیدا کئے جانا ضروری تھے۔ عمران خان جاری نظام کی کمزوریوں، کوتا ہیوں پر برستے رہے، نوجوانوں میں اس نظام کے بارے میں نفرت اور باغیانہ جذبات پیدا کرتے رہے، نوجوانوں کو تبدیلی کے بارے میں کہتے رہے سہانے خواب دکھاتے رہے، ریاست مدینہ کا نام لے کر ان کی تسلی وتشفی کرتے رہے لیکن جب وہ اقتدار میں لائے گئے تو انہوں نے پہلے سے جاری نظام کی کمزوریوں سے بھر پور انداز میں فائدہ اٹھایا۔ گڈگورننس کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play