پی آئی اے کو بیچنا ہے یا رکھنا ہے، فیصلہ جلد کیا جائے!
قومی ایئر لائن پی آئی اے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکی ہے ایک دور تھا کہ پی آئی اے کی چاروں اطراف دھوم تھی، بین الاقوامی طور پرانفرادیت کی حامل تھی۔1947ء میں بانی ئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جب پاکستان کے بڑے سرمایہ دار اصفحانی کو اورینٹ ایئر ویز کے نام سے ایئر لائن بنانے کی ہدایت کی انہوں نے عملدرآمد کرتے ہوئے چارٹر کے ذریعے کام شروع کر دیا۔ 1955ء میں 10جنوری کو پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی،ابتدائی طور پر دس جہازوں کے ذریعے آغاز ہوا، پرانے ڈی سی تھری سے آغاز کرنے والی پی آئی اے نے کم وقت میں کامیابیوں کی منزل طے کرنا شروع کر دیں۔1969ء اور1970ء کی دہائی میں جو عروج ملا پوری دنیا میں مثال بن گئی،80سے زائد اسٹیشنوں کو کور کرنے والی پی آئی اے کے ایئر سکواڈ میں 65 کے قریب جہاز تھے۔1990ء کے بعد سیاسی مداخلت اور سیاسی بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا گیا عملاً بڑھتا گیا اور جہاز کم ہوتے چلے گئے،ملازمین کی تعداد17ہزار سے تجاوز کر گئی اور65 سے جہازوں کی تعداد کم ہوتے ہوئے2000ء تک 58 تک آ گئی، دنیا بھرمیں نام کمانے والی پی آئی اے کو کس کی نظر لگ گئی، سیاسی مداخلت اور یونین بازی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔2000ء کے بعد کئی دفعہ نجکاری کی تجویز آئی، مایوسی پھیلتی رہی، ملازمین کی بڑی تعداد تنقید کی زد میں رہی،
ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں ایک ہی شخص کو ٹکٹ سے نواز دیامجبوراً گولڈن شیک ہینڈ متعارف کرایا گیا،سینکڑوں ملازمین پی آئی اے چھوڑ گئے، سیاسی مداخلت کے ذریعے جعلی ڈگریوں پر بھرتیوں کا سکینڈل زبان عام رہا،عدالتوں میں کئی کئی ماہ سماعت ہوتی رہی، جعلی ڈگریوں کی گونج کی زد میں پائلٹ تک آ گئے،ٹریڈ یونین ملازمین کی بھرتیوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنی رہی، جہازوں کی تعداد میں ملسل کمی ہوتی رہی،اخراجات کے لئے انتظامیہ حکومتوں کا منہ دیکھتی رہی، پی آئی اے جس کو بڑی بڑی ایئر لائنز بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا رہا ہے وہ ایئر لائنز عروج کی طرف گامزن ہیں........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website