ہمارے ملک میں الیکشن کرانا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے،وجہ کثیر جہتی معاملات کو سنبھالنے میں ناکامی، سبھی جانتے ہیں کہ ایک جمہوری سیٹ اپ میں حکومت ہی انتظامیہ ہوتی ہے اور انتظامیہ پر خود سیاسی سٹیک ہولڈرز کا یقین اور بھروسہ اتنا ہے کہ جب الیکشن کرانے کا وقت آتا ہے تو ایک منتخب حکومت کا باقاعدہ خاتمہ کیا جاتا ہے یعنی اس کی آئینی معیاد پوری ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے پھر حکومت اور اپوزیشن کی رضا مندی سے ایک عبوری یا نگران سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے جو الیکشن کراتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سارے انتظامات اور ان ساری احتیاطوں کے باوجود سوائے جیتنے والی پارٹیوں اور امیدواروں کے کوئی بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتا، ہارنے والے سبھی دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے ہیں جبکہ جیتنے والوں کو الیکشن نہایت صاف شفاف اور منصفانہ نظر آتا ہے۔ دھاندلی جیسے الزامات سے بچنے کے لیے الیکشن کے عمل میں عدلیہ اور فوج کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اس سے الیکشن کے عمل میں کچھ شفافیت ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگانے کی شدت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

الیکشن کرانے کے لئے ان سارے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات 2024 کے لیے طے کیا گیا کہ اچھی شہرت رکھنے والے انتظامی افسروں کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کے طور پر تعینات کیا جائے گا، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں، ریٹرننگ افسروں اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسروں (اے آر اوز) کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جس میں طے پایا کہ خیبر پختونخوا کے 36' سندھ کے 30' پنجاب کے 41 میں سے 40 اور بلوچستان کے 36 اضلاع کے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر ہوں گے، جبکہ ڈائریکٹر جنرل ڈی جی خان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ڈی آر او تونسہ تعینات کیا گیا اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر ڈی آر او اسلام آباد تعینات ہوئے۔

لاہور میں مفت کھانا نہ دینے پر پولیس اہلکاروں کا ہوٹل ملازم پر تشدد

تحریک انصاف نے انتخابات کے لیے انتظامی افسروں کی تقرری کو مسترد کر دیا اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ دھاندلی کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے، اس پارٹی نے لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر دی جس کا اسے مثبت ردِ عمل ملا، اس معاملے میں پی ٹی آئی کے تحفظات اتنے زیادہ اور اتنے شدید تھے کہ اس خدشے کے باوجود درخواست دائر کی گئی کہ اس کے تحت شروع ہونے والے عمل کے نتیجے میں انتخابات کا عمل آگے بھی جا سکتا ہے،اسی وجہ سے پی ٹی آئی کی اس درخواست اور آر اوز سے متعلق تحفظات کو دوسری سیاسی جماعتوں نے الیکشن سے بھاگنے کے مترادف قرار دیا تھا، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملک میں فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بیوروکریٹس کی بطور انتخابی عملہ تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ 8 فروری کو انتخابات کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد کرائے،اعلیٰ ترین عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

سابقہ گلوکارہ رابی پیرزادہ نے خاموشی سے شادی کرلی

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے تحت جب کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا تو آر اوز کی طرف سے بہت سے ایسے امیدواروں کے کاغذات مسترد کر دیے گئے جن کا ایک مخصوص پارٹی سے تعلق تھا،اس کے خلاف اب الیکشن ٹریبونلز میں درخواستوں کی سماعت جاری ہے اور اکثر مسترد کاغذات نامزدگی منظور ہو رہے ہیں۔ فی الوقت معاملہ یہ ہے کہ الیکشن کرانے کے لیے انتظامی افسروں نے آغاز ہی میں ون وے ٹریفک چلا کر خود کو پارٹی بنا لیا ہے، اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سول سروس پر بھی حرف آیا ہے ورنہ اب تک اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز زیادہ تر غیر جانب دار ہی قرار پاتے رہے ہیں، کیا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ الیکشن کمیشن کے ایک فیصلے نے اس سروس کا نام ڈبو دیا ہے؟ ایک طویل عرصے سے انتظامیہ کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ الیکشن میں انتظامات اور ڈی آر اوز سے آر اوز تک کی انتظام کاری اسی کا حق ہے اور یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے، یہ مطالبہ پورا ہو گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ کیا وہ مطالبہ یہ سب کچھ دکھانے کے لیے کیا جا رہا تھا جو پاکستانی عوام نے مشاہدہ کیا؟ اگر استعداد نہیں تھی تو میرے خیال میں ذمہ داری بھی نہیں لینا چاہیے تھی،پہلی دفعہ انتظامیہ کو موقع ملا اور اس نے جانب داری کی انتہا کر دی، ایسی انتظامیہ پر آئندہ عوام کس طرح بھروسہ کریں گے؟ اگر شروعات یہ ہیں تو اسی انتظامیہ کے کردار کا الیکشن کے اگلے مراحل کا کیا بنے گا؟ اگر اس طرز پر ہونے والے الیکشن کسی نے تسلیم نہ کیے تو کیا پھر کچھ نئے ٹریبونلز قائم کیے جائیں گے یا پھر ماضی کی طرح ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا؟ یہ طے ہوا تھا کہ آر اوز انتظامی افسر ہوں گے، اپیلیں عدلیہ سنے گی اور الیکشن کمیشن، الیکشن کرائے گا، کیا اس فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا؟

فلم 'انیمل' کے اداکارنے خودکشی کرنیوالی لڑکی کو بچالیا

ماضی بعید اور ماضی قریب سے ہم جو کچھ دیکھتے آ رہے ہیں کیا اس کی بنیاد پر یہ کہنا بے جا یا غلط ہو گا کہ بنیادی طور پر یہ سروس ختم ہو چکی ہے کیونکہ اس میں اہلیت کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے، پہلے یہ سروس پورے ضلع کے انتظامی معاملات بھی احسن طریقے سے نبھا لیتی تھی لیکن اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ایک چھوٹے سے معاملے میں اس کی ساکھ خراب ہو گئی ہے،اگر یہ کام انہوں نے کسی دباؤ میں آ کر کیا ہے تو بلا شبہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے، اگر واقعی کوئی دباؤ تھا تو اس دباؤ کا پتا چلایا جانا چاہیے، اگر دباؤ نہیں تھا تو پھر ایک اہم معاملے میں غفلت کے ارتکاب افراد کی جواب دہی ہونی چاہیے۔ اگر معاملات کو سدھارنا ہے، اگر اس سروس کی کارکردگی بہتر بنانا ہے تو پھر سنجیدگی اختیار کرنا ہو گی، ہر جگہ انتظامیہ میں پی اے ایس (Pakistan Administrative Service) کی سپرامیسی ہے، زیادہ تر معاملات انہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، چیف سیکرٹری اور دوسرے اہم انتظامی سیکرٹری اسی سروس کے ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی ایم ایس یا صوبائی سروس بھی آلہ کار بنی مگر وہ تو ماتحت ہے، بنیادی فالٹ وفاقی سروس کا محسوس ہوتا ہے، اس فالٹ کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ معاملات اور اقدامات کبھی بہتر نہیں ہو سکیں گے، بہر حال وقت کی اہم ترین سوچ یہ ہے کہ اس بد مزگی کے بعد الیکشن کا کیا بنے گا؟ کیا اس میں شفافیت برقرار رکھی جا سکے گی؟ کیا غیر جانب داری رکھی جا سکے گی؟ کیا عوام کا حقیقی مینڈیٹ اگلے حکمرانوں کو منتقل ہو سکے گا؟

کترینہ کیف کی بنا میک اپ تصاویر وائرل

QOSHE -          الیکشن میں انتظامی افسروں کا کردار؟ - محسن گواریہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

         الیکشن میں انتظامی افسروں کا کردار؟

6 0
08.01.2024

ہمارے ملک میں الیکشن کرانا ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے،وجہ کثیر جہتی معاملات کو سنبھالنے میں ناکامی، سبھی جانتے ہیں کہ ایک جمہوری سیٹ اپ میں حکومت ہی انتظامیہ ہوتی ہے اور انتظامیہ پر خود سیاسی سٹیک ہولڈرز کا یقین اور بھروسہ اتنا ہے کہ جب الیکشن کرانے کا وقت آتا ہے تو ایک منتخب حکومت کا باقاعدہ خاتمہ کیا جاتا ہے یعنی اس کی آئینی معیاد پوری ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے پھر حکومت اور اپوزیشن کی رضا مندی سے ایک عبوری یا نگران سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے جو الیکشن کراتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سارے انتظامات اور ان ساری احتیاطوں کے باوجود سوائے جیتنے والی پارٹیوں اور امیدواروں کے کوئی بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتا، ہارنے والے سبھی دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتے ہیں جبکہ جیتنے والوں کو الیکشن نہایت صاف شفاف اور منصفانہ نظر آتا ہے۔ دھاندلی جیسے الزامات سے بچنے کے لیے الیکشن کے عمل میں عدلیہ اور فوج کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اس سے الیکشن کے عمل میں کچھ شفافیت ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگانے کی شدت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔

تھائی لینڈ کا غیرملکی سیاحوں کیلئے ویزہ فری انٹری کا اعلان

الیکشن کرانے کے لئے ان سارے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات 2024 کے لیے طے کیا گیا کہ اچھی شہرت رکھنے والے انتظامی افسروں کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کے طور پر تعینات کیا جائے گا، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں، ریٹرننگ افسروں اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسروں (اے آر اوز) کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جس میں طے پایا کہ خیبر........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play