گریٹر اسرائیل کا قیام: کوئی نہیں روک سکتا مگر اللہ
تمام عالمی و علاقائی عیسائی طاقتیں ڈٹ کر کھل کھلا کر اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ غزہ سے شروع ہونے والی جنگ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ 7اکتوبر 2023ء سے جاری یہ جنگ ایک علاقائی جنگ بن چکی ہے۔ فلسطینی اس جنگ میں ملوث ہو چکے ہیں چاہے وہ غزہ کے بسنے والے ہوں یا خان یونس اور دیگر جگہوں پر رہتے ہ وں وہ سب بلاتفریق اسرائیلی بربریت کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے غزہ پر اس قدر بمباری کی ہے اور تباہی پھیلائی ہے کہ وہ اب قابلِ رہائش نہیں رہا۔ اسرائیلی بربریت کے باعث غزہ ایک مہیب تباہی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے مہاجر کیمپوں میں بھی بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کہہ رہے ہیں کہ یہاں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس المیے کی وہ بات کررہے ہیں وہ جنم لے چکا ہے اگر عمیق نظری سے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو اس المیے کی ابتداء باالفور ڈیکلریشن سے ہوئی جب جنگ عظیم اول کے بعد برطانوی حکومت نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ایک ریاست کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں یہودی زعماء و امراء نے جس طرح برطانوی حکومت کی مدد کی اور بالآخر 1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہودی مذہب کی ابتداء ہو یا اس کا استیلاء، وہ فلسطین میں نہیں ہوا۔ موسیٰ علیہ صلوۃ و سلام اس خطے کے نہیں تھے انہیں نبوت بھی یہاں نہیں ملی تھی اس خطے کے اصلی باشندے فلسطینی ہی تھے اس بات کا ذکر بائبل مقدس میں بھی آیا ہے۔یہودیوں پر اللہ تبارک تعالیٰ نے کئی بار عذاب مسلط کیا۔ کبھی رومنوں نے کبھی یونانیوں نے بنی اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website