سیاست میں تشدد، انتشار اور عدم برداشت کا رحجان ساٹھ کی دہائی سے پہلے ہی متعارف ہو گیا تھا جب پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء جنرل ایوب خان نے ملک میں مختصر دور جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے طاقت کے ذریعے نظام آمریت متعارف کرایا اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے سیاست کے دھارے میں آنے کے لئے آئین توڑنے کے جرم کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف زہریلی مہم کے ذریعے غدار قرار دیا، شائد اس لئے کہ وہ پاکستان بناتے ہوئے اپنے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کھڑی رہیں جو ایوب خان کے لئے " غداری" کے مترادف تھا اوراسی بنیاد پر آمریت کے لباس میں ہی الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اور الیکشن جیتا اور " جمہوری" صدر کا روپ دھار لیا لیکن آمریت پر ایمان رکھنے والے ایوب خان کی جانب سے ساٹھ کی دہائی میں پیش لئے جانے والے نفرت، عدم برداشت اور غاصبانہ رویوں کے مضمرات 70 کی دہائی تک عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتے رہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے جمہوری اداروں کے قیام اور جمہوریت کی ترویج کی کوششوں کے دوران تاریخ کے تیسرے آمر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کی زد میں آگئے اور انجام کار " دوست ملک کے اشارے پر" پھانسی چڑھا دیا جبکہ پھانسی کی سزا دینے والوں کا جانبدارانہ کردار ثابت ہونے پر سپریم کورٹ نے بھٹو شہید کی سزا موت کو مسترد کردیا- لیکن مارشل لاؤں کے مارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ذہنوں میں موجود آمریت کے اثرات کی بنیاد پر اپنے سیاسی اطوار میں کوئی مثبت تبدیلی وضع نہیں کر سکے- بظاہر ایوب خان کے نظریۂ آمریت کے پیروکار عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف جمہوریت اور جمہوری روایات کی پاسدار ہونے کی دعویدار ہیں لیکن بانی اپنے "نظریۂ یوٹرن" پرسختی سے کاربند ہیں جس کے تحت اپنے نظریات، اصولوں اور بیانات سے برسوں، مہینوں یا دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں منحرف ہوجاتے ہیں۔ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے،شہداء کا تمسخر اور شہدائے وطن کی یادگاروں کو بے توقیر،فوج کو تقسیم کرنے منظم سازش،فوج کے خلاف نفرت پھیلانے اور "حقیقی آزادی"کے نام پر قومی سلامتی کے اداروں پر سوشل میڈیا بریگیڈ کی یلغار کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کرنے والی تحریک انصاف اس بھونڈے انداز میں اسٹیبلشمنٹ کے قدموں گر گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنی پوری کابینہ کے ساتھ کورکمانڈر ہاؤس پشاور پہنچ گئے اور کابینہ کمیٹی کا اجلاس بھی وہیں منعقد کیا۔آج بانی پوری قوت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں لیکن کوئی ان کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ آوازیں سننے والوں کو ابھی 9 مئی کی باغیانہ تحریک یاد ہے جب آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین نہ رکھنے والوں نے کورکمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو راولپنڈی کے علاوہ حساس مقامات کو نذرآتش کیا جس کا مقصد بھارتی ایجنسیوں کو پیغام دینا تھا کہ پاکستانی افواج کمزور ہو چکی ہے اور جنگ کے قابل نہیں رہی۔اس کے علاوہ عمران خان نے پاکستان کی سلامتی، معیشت اور افواج کے خلاف وہ کچھ کیا جس کا تصور کوئی دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ ایک انتہائی اہم موضوع اعلیٰ عدلیہ کے خلاف پھیلایا جانے والا خوف و ہراس کی مہم ہے جس کے لئے ملک کے وفاقی اور صوبائی تحقیقاتی ادارے اس ریاست دشمن گروہ کے "کھرے" تلاش کرنے کی کوششوں میں ہیں جو اعلیٰ عدلیہ میں خوف و ہراس پیدا کرکے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو خطوط کے ذریعے زہریلا پاؤڈر بھجوا کر عدل کے ایوانوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتا ہے جس کی شدت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے البتہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (CTD) اس گروہ کا سراغ لگانے کی کوششوں میں پیش پیش ہے اور ان ریاست دشمن عناصر کے اس مقام کا سراغ لگا لیا ہے جہاں سے وہ ججوں کو خطوط ارسال کرتے ہیں- تحقیقات کے ماہرین کا عندیہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے لئے ایسا گروہ سرگرم عمل ہے کیونکہ ان مخصوص ججوں نے اس سیاسی یا جرائم پیشہ گروہ کی مرضی کے مطابق "انصاف" نہیں کیا- تاہم تحقیقات کاروں کا دعویٰ ہے کہ دہشتگردوں کا یہ گروہ "دائرۂ گرفت" میں آچکا ہے۔ دوسری طرف بانی اور تحریک انصاف آج اس شخصیت سے انصاف کی امید لگائے ہوئے ہیں جسے اس کی اہلیہ سمیت اس وقت ملک کے وزیراعظم عمران خان کی خواہش اور انا کی تسکین کے لئے سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور بے توقیر کیا گیا لیکن منصف نے طاقت کا غلط استعمال کر کے انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضا کے لئے انصاف کا راستہ اپنایا، دوسری طرف تحریک انصاف اب بھی اس منصف کے خلاف ایسے مواقع کے انتظار میں رہتی ہے کہ کب کوئی فیصلہ ان کی خواہش کے خلاف ہو تو یہ پارٹی قانون،آئین اور جمہوری اقدار کے تمام اقدار بالائے طاق رکھ کر سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے تضحیک اور توہین کی تمام سرحدیں عبور کرجاتی ہے-

نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلئے پاکستانی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا اعلان 8 کی بجائے 9 اپریل کو ہونے کا امکان ہے۔

رپورٹس کے مطابق حادثے کے بعد انجن پٹری سے اتر گیا جبکہ تمام مسافر محفوظ رہے۔

وزیر اعظم نے مغرب کی نماز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ادا کی، شہبازشریف آج قیام اللیل اور دعا میں بھی شریک ہوں گے۔

سال 2024 کا پہلا مکمل سورج گرہن آج ہوگا اور یہ اگلے 20 سال تک دوبارہ دکھائی نہیں دے گا، اس کا دورانیہ 4؍منٹ 27؍سیکنڈ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

شہر میں ایک ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائم کی 6780 وارداتیں پیش آئیں۔

جہلم کی تحصیل دینہ میں مدرسے کے معلم کی 10 طالب علموں سے مبینہ بدفعلی کا انکشاف ہوا ہے، پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے سینیٹ کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کرلیا۔

مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری مرتضیٰ جاوید عباسی کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات پر اختیار ولی کا بیان حقیقت کے 100فیصد منافی ہے، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔

سعودی ولی عہد نے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکا موٹر سائیکل ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کیا گیا۔

بالی ووڈ کی پرکشش اداکارہ کیرتی سنن کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب اکثر اسٹار کڈز (بالی ووڈ کے اداکاروں کے بچوں) کو زیادہ اچھے مواقع مل جاتے ہیں۔

سکھ حریت پسند رہنما گرپت ونت سنگھ پنو نے بیرون ملک مقیم سکھ شہریوں پر بھارتی قاتلانہ حملوں سے متعلق اہم انکشافات کردیے۔

بابر اعظم نے کہا کہ بیٹنگ اور کپتانی کو الگ رکھتا ہوں، محنت اور لگن کامیابی کی بنیاد ہے۔

بالی ووڈ کے معروف اداکار اکشے کمار اور انکی اہلیہ ٹوئنکل کھنہ کی شادی 17 جنوری 2001 کو ہوئی، انکے دو بچے جن میں بیٹا آراو اور بیٹی نیتارا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں اور مسلط کردہ جنگ کو 6 ماہ مکمل ہوگئے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے مطابق غزہ میں بچوں کی اموات تمام انسانیت پر دھبہ ہیں۔

مقتول شہروز بٹ کے بھائی رضوان نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قاتل ڈاکوؤں کو معاف کرتے ہیں۔

QOSHE - شکیل انجم - شکیل انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شکیل انجم

17 0
08.04.2024

سیاست میں تشدد، انتشار اور عدم برداشت کا رحجان ساٹھ کی دہائی سے پہلے ہی متعارف ہو گیا تھا جب پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء جنرل ایوب خان نے ملک میں مختصر دور جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے طاقت کے ذریعے نظام آمریت متعارف کرایا اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے سیاست کے دھارے میں آنے کے لئے آئین توڑنے کے جرم کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف زہریلی مہم کے ذریعے غدار قرار دیا، شائد اس لئے کہ وہ پاکستان بناتے ہوئے اپنے بھائی قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کھڑی رہیں جو ایوب خان کے لئے " غداری" کے مترادف تھا اوراسی بنیاد پر آمریت کے لباس میں ہی الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اور الیکشن جیتا اور " جمہوری" صدر کا روپ دھار لیا لیکن آمریت پر ایمان رکھنے والے ایوب خان کی جانب سے ساٹھ کی دہائی میں پیش لئے جانے والے نفرت، عدم برداشت اور غاصبانہ رویوں کے مضمرات 70 کی دہائی تک عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتے رہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے جمہوری اداروں کے قیام اور جمہوریت کی ترویج کی کوششوں کے دوران تاریخ کے تیسرے آمر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کی زد میں آگئے اور انجام کار " دوست ملک کے اشارے پر" پھانسی چڑھا دیا جبکہ پھانسی کی سزا دینے والوں کا جانبدارانہ کردار ثابت ہونے پر سپریم کورٹ نے بھٹو شہید کی سزا موت کو مسترد کردیا- لیکن مارشل لاؤں کے مارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ذہنوں میں موجود آمریت کے اثرات کی بنیاد پر اپنے سیاسی اطوار میں کوئی مثبت تبدیلی وضع نہیں کر سکے- بظاہر ایوب خان کے نظریۂ آمریت کے پیروکار عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف جمہوریت اور جمہوری روایات کی پاسدار ہونے کی دعویدار ہیں لیکن بانی اپنے "نظریۂ یوٹرن" پرسختی سے کاربند ہیں جس کے........

© Daily Jang


Get it on Google Play