سمجھا تو یہی جاتا ہے کہ فیصل آباد اور لاہور والے بہت جملے باز ہیں بلکہ پورے پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس صوبے کے لوگ سنجیدہ سے سنجیدہ پہلو میں بھی کوئی مضحکہ خیزنکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر فیس بک میں سیاسی اور غیر سیاسی معاملات کے حوالے سے یہ بات کچھ مشکوک سی ہوجاتی ہے۔ ادھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اگلے ہی لمحے اس پر کوئی کرارا سا جملہ سامعین کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے اس سےیہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس ستم ظریف کا تعلق کس شہر یا کس صوبے سے ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے بعد مزاح نگاروں میں کوئی بڑا نام اگر نظرنہیں آتا تو اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مزاح کے یہ گمنام سپاہی تیغ و تفنگ کے ساتھ فیس بک کے محاذ پر اپنے جوہر دکھانے لگ گئے ہیں۔ ایسے ایسے خوبصورت جملے سننے کو ملتے ہیں کہ لکھنے والے کو بلاتمیز مذہب و ملت و جنس گلے لگا کر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً ابھی ابھی مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی پی ٹی آئی کی باہمی گالی گلوچ نما بیان بازی باہمی محبت کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے اسکے فوراً بعد فیس بک کے طنز و مزاح نگار پوری طرح مسلح ہو کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔آج ہی جو تبصرےپڑھنے کو ملے ہیں مثلاً ’’پی ٹی آئی والے ابھی ساجد عباس سے آگ پر ماتم کرنا سیکھ رہے تھے اور آج ہی ان کا لیڈر یزید پر ایمان لے آیا‘‘۔ایک کمزور سا جملہ یہ بھی ہے کہ’’ مولانا فضل الرحمان سے بہت زیادتی ہوئی ہے انہیں صدارت دکھا کر وزارت بھی لے لی گئی ہے۔ ‘‘ایک زہریلا جملہ یہ کہ’’ اختلاف اپنی جگہ لیکن صلاح الدین ایوبی کے بعد اگر کوئی انگریز کے سامنے ٹکا ہے تو وہ مولانا ہی ہیں۔‘‘

متذکرہ جملہ بازی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی کارستانی ہے اور یہ پہلی دفعہ گالی گلوچ کی بجائے ہلکے پھلکے انداز کی چھیڑ چھاڑ ہے اور یہ چاقو کے ساتھ گدگدیاں کرنے کے مترادف ہے۔اس نوع کی گدگدیاں میاں نوازشریف کے ساتھ بھی کی جارہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو لندن سے بلا کر انکے ہاتھ میں صرف کبوتر پکڑا دیا ہے‘‘۔ ایک اور جملہ ’’قوم کو نوازنے کا وعدہ تھا، نواز کو کبوتر اور قوم کو شہباز دے کر وعدہ پورا کردیا گیا‘‘۔یہ ستم ظریف کسی کو بھی معاف نہیں کر رہے۔ اندازہ لگائیں تو نوزائیدہ تحریک استحکام کی عزت بھی ان طنز نگاروں کےہاتھوں محفوظ نہیں رہی اور ارشاد فرمایا کہ’’تحریک استحکام چھ ماہ کی عمر میں وفات پا گئی، سوگواران میں بیوہ فردوس عاشق اعوان اور دو بچے علیم خان اور فیاض الحسن چوہان چھوڑ گئی‘‘۔ ابھی فیس بک پر نظر ڈالی تو ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی حالیہ دوستی کے حوالے نظر آئے۔ اس کیلئے الگ انداز اپنایا گیا تھا یعنی تصویروں کی زبانی کہانی بیان کی گئی تھی۔ مثلاً ایک بندر لیپ ٹاپ پر بیٹھا ہے اور نیچے کیپشن ہے ’’یوتھیے اپنے سوشل میڈیا سے مولانا کے خلاف کئی گئی پوسٹیں ڈیلیٹ کرتے ہوئے‘‘۔ایک بہت معنی خیز تصویری طنز یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مولانا فضل الرحمان نے سر پر پی ٹی آئی کا پرچم پگڑی کی صورت باندھا ہوا ہے اور عمران خان نے مولانا کی مخصوص پگڑی اپنے سر پر باندھی ہوئی ہے۔ ایک پوسٹ جو میرے نزدیک بلودی بیلٹ ہے۔ اس اعلان پر مبنی ہے کہ’’ عوام ان دنوں نادرا آفس جانے سے گریز کریں کہ عمران خان کو والد کا مرتبہ دینے والے نوجوان اپنے والد محترم کے نام کی جگہ اب مولانا فضل الرحمان کا نام لکھوانے پہنچےہوئے ہیںجس کی وجہ سے وہاںبہت رش ہے۔‘‘ ایک اور طعنہ زنی ملاحظہ کریں ’’یوتھیے کل سے اپنی ٹینکیاں مولانا کے ڈیزل پمپ سے فل کروائیں‘‘۔

آخر میں صرف ایک جملہ نما پیرا۔ جس میں صنم کا پہلو بھی پایا جاتا ہے وہ بھی پڑھ لیں۔ ’’جونہی اسد قیصر مولانا کے حجرے میں داخل ہوئے تو سائیڈ ٹیبل سے ٹکرانے کی وجہ سے لڑکھڑائے اور گرتے ہوئے ہاتھ مولانا کے گھٹنے پر پڑے۔ جس پر مولانا نے ہنستے ہوئے کہا ، چھوڑ دیں بھائی یہ گھٹنا نہیں، اسد قیصر بولے حضرت یہ جو کچھ بھی ہے لیکن ہمیں فیض یہیں سے ملنا ہے۔‘‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی خوبصورت غزل

ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے

کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے

کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی

خدا نے بولنا تھا، تیس پارے بن رہے تھے

بچھایا جا چکا تھا اک بچھونا آسماں پر

ابھی مہتاب بننا تھا، ستارے بن رہے تھے

کہیں پر پنجہ ِ مریم میں آتش پھیلتی تھی

کہیں پر ذکریا تھا اور آرے بن رہے تھے

چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے

ہوا معلوم کہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے

مری نگران تھیں آنکھیں، جہاں پر تُو کھڑی تھی

جہاں پر تیری نظریں تھیں، نظارے بن رہے تھے

رکی تھی حلق میں آواز سے ملتی ہوئی چیز

تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے

جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈبیہ

وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے

گلی میں شور سا برپا تھا اور بچّے گھروں سے

نکلنے والے تھے رنگیں غبارے بن رہے تھے!

مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ خدا کرے ن لیگ فیصلہ کر لے کہ جس کو اکثریت دلائی گئی اسی کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔

ایچ بی ایل پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) 9 کا آغاز آج ہوگا۔

اپنی درخواست میں محسن داوڑ نے کہا کہ این اے 40 کے انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، این اے 40 سے کامیابی کا نوٹیفیکشن روکا جائے۔

سندھ ہائیکورٹ میں عباسی شہید اسپتال کے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کا وظیفہ بڑھنے کی درخواست پر میئر کراچی و دیگر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

ایک تحقیق کے مطابق صرف چہل قدمی کرنے سے ڈپریشن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ہلکی پھلکی ورزش مثلاً یوگا، وزن اٹھانا، چہل قدمی اور جاگنگ سے ڈپریشن (ذہنی دبائو) کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے افغان عبوری نائب وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد کی قانونی حیثیت پر من گھڑت دعوے حقائق تبدیل نہیں کرسکتے۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے، اسلام آباد میں کسی بھی احتجاج یا ریلی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

نگراں حکومت نے بجلی کمپنیوں میں تبادلوں اور تقرریوں پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن نے تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو تبادلوں اور تقرریوں سے روک دیا۔

ملک احمد خان نے کہا کہ آج ہماری اپنی قیادت کے ساتھ ملاقات ہوئی، پارٹی رہنماؤں نے 16 ماہ کی اتحادی حکومت کے ساتھ معاملات پر اپنی رائے دی۔

بالی ووڈ کے اسٹار اداکار رنبیر کپور نے معروف بھارتی بزنس مین مکیش امبانی سے ملی نصیحت بتادی۔

علی محمد خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ملک و قوم کو آگے لیکر جائیں گے، ملک کو آگے لے جانے کیلئے سچ، معافی اور درگزر کی طرف جانا ہوگا۔

پولیس نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزم سے مزید تحقیقات جاری ہے۔

مولانا فضل الرحمان کو بانی پی ٹی آئی نہ صرف ان کو تضحیک کا نشانہ بناتے رہے، بلکہ انہیں ڈیزل کے نام سے یاد کرتے تھے۔

امریکی گلوکارہ و گیت نگار ٹیلر سوئفٹ نے کنساس سٹی چیفس سپر بائول وکٹری پریڈ کے دوران فائرنگ سے ہلاک ہونے والی 43 سالہ خاتون ریڈیو ڈی جے، لیزا لوپیز گلوان کے خاندان کے لیے ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک لاکھ بار بھی سیاسی مفاد قربان کرنا پڑا تو کریں گے۔

حافظ نعیم الرحمان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اس الیکشن کے نتائج کالعدم قرار دے، ہمیں چپ کروانے کیلئے ایک ارینجمینٹ کیا گیا تھا۔

QOSHE - عطا ء الحق قاسمی - عطا ء الحق قاسمی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عطا ء الحق قاسمی

21 17
17.02.2024

سمجھا تو یہی جاتا ہے کہ فیصل آباد اور لاہور والے بہت جملے باز ہیں بلکہ پورے پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس صوبے کے لوگ سنجیدہ سے سنجیدہ پہلو میں بھی کوئی مضحکہ خیزنکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر فیس بک میں سیاسی اور غیر سیاسی معاملات کے حوالے سے یہ بات کچھ مشکوک سی ہوجاتی ہے۔ ادھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اگلے ہی لمحے اس پر کوئی کرارا سا جملہ سامعین کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے اس سےیہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس ستم ظریف کا تعلق کس شہر یا کس صوبے سے ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے بعد مزاح نگاروں میں کوئی بڑا نام اگر نظرنہیں آتا تو اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مزاح کے یہ گمنام سپاہی تیغ و تفنگ کے ساتھ فیس بک کے محاذ پر اپنے جوہر دکھانے لگ گئے ہیں۔ ایسے ایسے خوبصورت جملے سننے کو ملتے ہیں کہ لکھنے والے کو بلاتمیز مذہب و ملت و جنس گلے لگا کر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً ابھی ابھی مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی پی ٹی آئی کی باہمی گالی گلوچ نما بیان بازی باہمی محبت کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے اسکے فوراً بعد فیس بک کے طنز و مزاح نگار پوری طرح مسلح ہو کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔آج ہی جو تبصرےپڑھنے کو ملے ہیں مثلاً ’’پی ٹی آئی والے ابھی ساجد عباس سے آگ پر ماتم کرنا سیکھ رہے تھے اور آج ہی ان کا لیڈر یزید پر ایمان لے آیا‘‘۔ایک کمزور سا جملہ یہ بھی ہے کہ’’ مولانا فضل الرحمان سے بہت زیادتی ہوئی ہے انہیں صدارت دکھا کر وزارت بھی لے لی گئی ہے۔ ‘‘ایک زہریلا جملہ یہ کہ’’ اختلاف اپنی جگہ لیکن صلاح الدین ایوبی کے بعد اگر کوئی انگریز کے سامنے ٹکا ہے تو وہ مولانا ہی ہیں۔‘‘

متذکرہ جملہ بازی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی کارستانی ہے اور یہ پہلی دفعہ گالی گلوچ کی بجائے ہلکے پھلکے انداز کی چھیڑ چھاڑ ہے اور یہ چاقو کے ساتھ گدگدیاں........

© Daily Jang


Get it on Google Play