ماضی نے عبرتناک شکست کی صورت میں ثابت کردیا ہے کہ تکبر اور طاقت کے نشے میں رونما ہونے والی رعونت کے زور پر قائم کی جانے والی حکومت پر صرف مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ تکبر اور رعونت زدہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کو بہرصورت ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے عوام کے پاس جانا ہی ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر آنے والی حکومت کی عمارت تکبر اور رعونت کی بنیاد پر استوار نہیں ہونی چاہئیے، ریاست کے استحکام، ملک کی تعمیر اور عوام کو آسودگی فراہم کرنے کو مربوط اور روشن مستقبل مہیا کرنے کا مقصد آئندہ حکومت کا پہلا ایجنڈہ ہونا چاہئیے۔عام تاثر تو یہی ہے کہ تکبر مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا نمایاں جزو رہا ہے جس کے نتیجے میں پارٹی کے بنیادی کارکنوں اور بعض قائدین میں مایوسی پیدا ہوئی، یہی وجہ ہے کہ عوام نے ملک میں تعمیروترقی کی نئی تاریخ رقم کرنے والی پارٹی کے اس کردار کو نظرانداز کردیا اور قوم پر اس پارٹی کو مسلط کردیا جس کی سیاست ریاست دشمنی، گمراہی اور تکبرورعونت پر استوار تھی۔جو طاقت کے بےدریغ استعمال کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کو اخلاقی، سیاسی اور آئینی حق تصور کرتی تھی اور کسی بھی متنازعہ مسئلے کو "میں نہ مانوں" کی مصداق پر حل کرنے پر یقین رکھتی ہو اور تحریک انصاف انتخابات کے اختتام اور شکست کے تین چار روز بعد بھی اپنا ’’اخلاقی حق‘‘ حاصل کرنے کیلئے موٹروے سمیت پشاور، راولپنڈی، لاہور، کراچی اور کوئیٹہ کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس پر پتھراؤ کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں کو نذر آتش کرکے ملک اور ریاستی املاک کو تباہ کرنے کے پارٹی ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لایعنی احتجاجی سلسلہ تحریک انصاف کی’’اعلیٰ لیکن عارضی قیادت‘‘ کی جانب سے ’’اصلی قیادت‘‘ نے عمران خان کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے ’’کلین سویپ‘‘ کےغیر حقیقی دعووں کے ذریعے گمراہ کیا اور گمراہ ہونا عمران خان کی فطری عادات اور پسندیدہ مشاغل میں شامل ہیں۔لیکن 8فروری نے تحریک انصاف کی ’’مقبولیت‘‘ کا پول کھول دیا لیکن پھر وہی مسئلہ "جمہوری روایات" کی راہ میں رکاوٹ ہے کہ تحریک انصاف سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ماننے کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوتی۔تحریک انصاف 2018کی دھاندلی کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ انہوں نے اسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دلا کر اقتدار حاصل کیا لیکن اب اپنی شکست تسلیم کرنے کے لئے اس مؤقف کی آڑھ میں تیار نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت انہیں ہرایا ہے اور ان کے نتائج تبدیل کر کے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا۔منفی سیاست پر یقین رکھنے والی تحریک انصاف کو مقافات عمل پر یقین نہیں اور ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو کل جو کچھ آج ان کے خلاف کیا گیا، غلط ہے تو کل اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لئے جو کچھ کیا، کیسے درست تھا؟تحریک انصاف نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ ان کی ماضی کی گمراہ کن پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں کوئی سیاسی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار نہیں وہیں ان کے حمائت یافتہ امیدوار، خواہ انہیں کامیابی نصیب ہوئی یا شکست سے دوچار ہوئے، ایک ایک کرکے پارٹی سے الگ ہو رہے ہیں، بالفاظ دیگر تحریک انصاف اپنے رویوں اور آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے ’’پت جھڑ‘‘ کا شکار ہے۔انہی بنیادوں پر کسی مدد کے بغیر تن تنہا حکومت بنانے کے دعوے کرنے والے پی-ٹی-آئی کی عارضی یا قائم مقام قیادت اپنی شکست تسلیم کرکے یہ حقیقت ماننے کے لئے تیار دکھائی دے رہی ہے کہ وہ اپنے طور پر حکومت بنانے کے قابل نہیں اور ان کے لئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے میں ہی ان عافیت ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے اقتدار کی دوڑ سے باہر ہونے کے اشارہ کے باوجود باقی تمام سیاسی جماعتیں اگرچہ مشترکہ حکومت بنانے کی کوششوں میں ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی خواہش کے نتیجے میں مشکلات اور پیچیدگیاں دکھائی دے رہی ہیں جو نئے انتخابی عمل کی جانب بڑھنے کا اشارہ ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نئے انتخابی عمل میں الجھنے کے لئے تیار نہیں تاہم جلد یا بدیر مشترکہ حکومت قائم ہونے کے امکانات روشن ہیں۔

ہیوسٹن کے لیک وڈ چرچ میں ایک خاتون کی فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوگئے۔

پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے بلاول بھٹو زرداری سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ مشکل حالات میں انتخابی مہم چلائی، اب الیکشن ہوگیا اور ایک جمہوری عمل مکمل ہوا۔

اسرائیل نے شمالی غزہ اور خان یونس کے بعد رفح شہر میں بھی زمینی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر خالد مقبول نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔

فاتح ٹیم نے دوسری اننگز 346 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈیکلیئر کی، واپڈا کی ٹیم 686 کے تعاقب میں 166 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطٰفی کمال نے کہا کہ 8 سال پہلے میری قوم کے نام پر جو کچھ کیا جاتا تھا اس پر قوم کو جواب دینا پڑتا تھا۔ آج یہ وہی جناح گراونڈ ہے جہاں سے پاکستان اور پاکستانیوں کی بات ہو رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما گوہر خان نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کو جوائن کرنے کی تجویز زیر غور نہیں۔

سرجن ڈاکٹر فرید اللّٰہ نے چیئرمین نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) محسن داوڑ کی حالت کو خطرے سے باہر قرار دیا ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان نے اپنی پارٹی کے نئے امیرکے انتخاب کےلیے 3 ناموں کا اعلان کردیا۔

یونیسیف کے مطابق رفح میں موجود بچے اور خواتین پہلے ہی کئی بار بےگھر ہوئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ذمے داران قانون شکنی کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔

بالی ووڈ کی ماضی کی مقبول ہیروئن زینت امان فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹا گرام پر اپنے پہلے سال کی تکمیل کو سلیبریٹ کر رہی ہیں۔

254 رنز کے تعاقب میں بھارتی انڈر19 ٹیم 174 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

واقعے کے بعد فائر بریگیڈ اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمیں بھی موقع پر پہنچ گئیں۔

اسرائیلی فوج کے غزہ میں حملے جاری ہیں اس حوالے سے حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے ان حملوں میں 2 اسرائیلی یرغمالی ہلاک ہوگئے۔

QOSHE - شکیل انجم - شکیل انجم
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شکیل انجم

14 36
12.02.2024

ماضی نے عبرتناک شکست کی صورت میں ثابت کردیا ہے کہ تکبر اور طاقت کے نشے میں رونما ہونے والی رعونت کے زور پر قائم کی جانے والی حکومت پر صرف مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ تکبر اور رعونت زدہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کو بہرصورت ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے عوام کے پاس جانا ہی ہوتا ہے۔بالفاظ دیگر آنے والی حکومت کی عمارت تکبر اور رعونت کی بنیاد پر استوار نہیں ہونی چاہئیے، ریاست کے استحکام، ملک کی تعمیر اور عوام کو آسودگی فراہم کرنے کو مربوط اور روشن مستقبل مہیا کرنے کا مقصد آئندہ حکومت کا پہلا ایجنڈہ ہونا چاہئیے۔عام تاثر تو یہی ہے کہ تکبر مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا نمایاں جزو رہا ہے جس کے نتیجے میں پارٹی کے بنیادی کارکنوں اور بعض قائدین میں مایوسی پیدا ہوئی، یہی وجہ ہے کہ عوام نے ملک میں تعمیروترقی کی نئی تاریخ رقم کرنے والی پارٹی کے اس کردار کو نظرانداز کردیا اور قوم پر اس پارٹی کو مسلط کردیا جس کی سیاست ریاست دشمنی، گمراہی اور تکبرورعونت پر استوار تھی۔جو طاقت کے بےدریغ استعمال کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کو اخلاقی، سیاسی اور آئینی حق تصور کرتی تھی اور کسی بھی متنازعہ مسئلے کو "میں نہ مانوں" کی مصداق پر حل کرنے پر یقین رکھتی ہو اور تحریک انصاف انتخابات کے اختتام اور شکست کے تین چار روز بعد بھی اپنا ’’اخلاقی حق‘‘ حاصل کرنے کیلئے موٹروے سمیت پشاور، راولپنڈی، لاہور، کراچی اور کوئیٹہ کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس پر پتھراؤ کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں کو نذر آتش کرکے ملک اور ریاستی املاک کو تباہ........

© Daily Jang


Get it on Google Play