ایک سیاستدان اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھاتو کسی صحافی نےاُس سے شراب سےمتعلق پالیسی کے بارے میں پوچھا، سیاستدان نے جواب دیا کہ’’اگر آپ کی مراد اُس شیطانی مشروب سے ہے جو جسم میں زہربھر دیتا ہے، دماغ کو برباد کرتا ہے، خاندان کو تباہ کرتا ہے اور جرائم کا سبب بنتا ہے، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں! لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ مشروب شادی کےموقع پر جشن منانے کے لیے پیا جاتا ہے، ویک اینڈ پر دوستوں کی محفل میں اُس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہےاور اُس کی فروخت سے حاصل ہونے والا ٹیکس ضرورت مند یتیموں پر خرچ کیا جاتا ہے، تو میں اس مشروب کےحق میں ہوں! اور میں اپنی رائےنہیں بدلوں گا، چاہے آپ کچھ بھی کہیں۔‘‘

دنیا بھر میں سیاستدانوں کے لطیفے مشہور ہیں اور یہ اسی قسم کا ایک لطیفہ ہے۔اِس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے ملک میں بھی بالآخر انتخابی ماحول بن رہا ہے ، موسم تو سردی کا ہے مگر سیاست گرم ہے ،اِن حالات میں اچھے خاصے دوست بھی بعض اوقات سیاسی بحث کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا دوستوں کی محفل میں ضروری ہے کہ بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں لیا جائے، ایک دوسرے کو نشتر سے گدگدی تو کی جائے مگر خیال رہے کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ اب تو خیر انتخابات یقینی ہیں مگر عموماً جب بھی پاکستان میں انتخابات کا موسم قریب آتاہے تو ایک سوال سے مجھے بے حد چِڑ ہوتی ہے ۔’’کیا الیکشن ہوں گے؟‘ ‘گزشتہ بائیس برسوں میں ملک میں چار انتخابات ہوئے یعنی کہ ہر پانچ سال بعد انتخاب ،مگر بے اعتباری ایسی ہے کہ ہر مرتبہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید اب کی بار نہیں ہوں گے۔لیکن اِس دفعہ تو حد ہوگئی ،انتخابات واقعی مقررہ وقت پر نہیں ہوئے،لیکن کوئی بات نہیں، چند ماہ کی تاخیر سے ہی سہی،ہوتو رہے ہیں۔عوام اپنے انتخابی حق کے بارے کافی حساس واقع ہوئے ہیں ،انہیں جب یہ حق نہیں ملتا تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگرجب ملتا ہے تو اِس قدر بےپروائی سے استعمال کرتے ہیں کہ پھرآئندہ پانچ برس تک سر پر ہاتھ رکھ کر رونا پڑتا ہے ۔بعض اوقات تو ایسے ایسے ’نابغہ روزگار‘ قسم کے لوگ منتخب ہوجاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے خالی دماغ کے باوجود اسمبلی میں پہنچ سکتے ہیں تو مجھے تو امریکہ کا صدر ہونا چاہیے۔خالی الدماغ سے بھی ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک سیاستدان اپناسالانہ میڈیکل چیک اپ کروانے گیا تو اُس کے ڈاکٹر نے تمام ٹیسٹ کرنے کےبعد اسے یہ اطلاع دی: ’’اچھی خبر یہ ہے کہ آپ کے دماغ کے دو حصے ہیں،اور بری خبر یہ ہے کہ دماغ کےبائیں حصے میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے جبکہ دائیں حصے میں کچھ بھی باقی نہیں ہے۔‘‘

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں سیاستدانوں کا تمسخر اڑا کر غیر محسوس انداز میں جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہوں تو آپ غلطی پرہیں، اِس ملک میں ایسے نام نہادپڑھے لکھوں کمی نہیں جو جمہوریت کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں اور اِس ضمن میں اُن کے دلائل وہ ہیں جو ہزار سال پہلے ہی پِٹ چکے ہیں مگر انہیں اُن دلائل کا علم 2024 میں ہوا ہے۔ایسے ہی ایک صاحب کا میں انٹرویو دیکھ رہا تھا جس میں موصوف کمال تیقن کے ساتھ فرما رہے تھے کہ جمہوریت اِس ملک کیلئے ٹھیک نہیں ہے،یہاں کے عوام جاہل، نا سمجھ ، کم علم اور کُند ذہن ہیں، لہٰذا جب تک اُن میں شعور نہیں آجاتا تب تک جمہوریت ایسے ہی تباہی مچاتی رہے گی۔ایسی دانشمندی بگھارنے پر اِن صاحب کو دس میں سے دس نمبر ملنے چاہئیں کیونکہ ہمارے ملک میں اِس قسم کی خرافات کو بیچنا بھی ایک ہُنر ہے اور موصوف یہ کام خاصی چابکدستی سے انجام دے رہے ہیں۔پروگرام کا میزبان ،جو کہ کافی سمجھدار اور ذہین نوجوان تھا،اِس قسم کے دلائل سُن کر تڑپ اٹھا اور اُس نے مہمان کو سمجھانےکی کوشش کی کہ جناب والا یہ جو باتیں آپ فرما رہے ہیں، عرصہ دراز سے دفن ہوچکیں، اب تو ڈکٹیٹر بھی یہ سودا نہیں بیچتے ،مگر مجال ہے کہ موصوف کو کچھ سمجھ آئی ہو۔اصل میں ایسے لوگ خود کو کسی اوتار سے کم نہیں سمجھتے ، اِن کا خیال ہے کہ جس طرح کی ڈگریاں اِن کے پاس ہیں ،جب تک ویسی ڈگریاں کسی شخص کے پاس نہیں ہوں گی تب تک اسے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ملنا چاہیے۔یہ ایسی احمقانہ بات ہے کہ اِس پر صرف قہقہہ ہی لگایا جا سکتا ہے،مدلل جواب اِن کے سر کے اوپر سے گزر جائے گا۔

گفتگو خواہ مخواہ سنجیدہ ہوگئی۔چلیے ماحول کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ایک ڈاکو کسی متمول شخص کی کوٹھی میں لوٹ مار کی غرض سے داخل ہوا اور صاحب خانہ کو پستول کے زور پر یرغمال بنا کر چیخا، ’اپنی ساری رقم مجھے دے دو!‘ وہ آدمی پُرسکون لہجے بولا: ’کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ میں پارلیمنٹ کا رکن ہوں!‘ ڈاکو نے جواب دیا، ’تو پھر اِس صورت میں، میری رقم مجھےواپس کرو!‘سیاستدانوں کے بارے میں ہماری رائے چونکہ اسی قسم کی ہے اِسلئے ملک میں جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔جب میں یہ لطیفے سنتا ہوں تو ایک بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ سیاستدان دنیا بھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں، اُن کے وعدوں کا اعتبار نہیں کیاجاتا اور اُن کے نعروں کا حساب بھی نہیں مانگا جاتا۔کل ہماری قوم اپنی نئی پارلیمان کا انتخاب کریگی، پانچ سال میںیہ موقع ایک مرتبہ ملتاہے،چاہے کچھ بھی ہویہ موقع گنوانا نہیں چاہئے اوراُن لوگوں کی باتوں میں آئے بغیر اپنا ووٹ ڈالنا چاہئے جو اِس جمہوری نظام کیخلاف ہر وقت زہر اگل کر اسے ڈِس کریڈٹ اور بدنام کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ،خاکم بدہن، یہ ملک رہتا ہے یا نہیں سو یہ ہر وقت سوائے کیڑے نکالنے کے اور کوئی کام نہیں کرتے۔ اِس بات سے مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا مگر جانے دیجیے، آج کالم کا پیٹ لطیفوں سے ہی بھرا ہے، مزید لطیفہ بد ہضمی کا باعث بن جائے گا ۔ والسلام۔

خبر ایجنسی کے مطابق ہیلی کاپٹر حادثہ جنوبی چلی کے علاقے لوس ریوس میں پیش آیا، سابق صدر کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار دیگر 3 افراد زخمی ہوئے۔

ریسکیو اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لاش ضابطے کی کارروائی کے لیے عباسی شہید اسپتال منتقل کردی گئی ہے۔

اپنے بیان میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا مجھے صرف آصف علی زرداری ہی بچا سکتا ہے، آصف زرداری نے نواز شریف کی حکومت بچائی۔

ہر 4 میں سے 3 پاکستانی انتخابی نتائج قبول کرنے کو تیار یں، اپسوس اور پاکستان پلس نے سروے جاری کردیا۔

لاہور ٹریفک پولیس نے 8 فروری تک شناختی کارڈ پر چالان نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حماس نے غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر اور مصر کی مجوزہ تجاویز کا جواب دے دیا.

الیکشن کمیشن کی جانب سے 6 فروری رات 12 بجے تک امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کا وقت دیا گیا تھا جو کہ ختم ہوگیا ہے۔

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں پٹاخوں کی فیکٹری میں دھماکے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد11 ہوگئی۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ فرح گوگی وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے پیسے پکڑتی تھی۔

کینیڈا نے حماس اور اسلامی جہاد کے 11 رہنماؤں پر پابندیاں لگا دیں۔ اوٹاوا سے کینیڈین وزارت خارجہ کے مطابق پابندیوں میں حماس رہنما یحیٰی سنوار اور محمد الضیف بھی شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی جو جمہوریت بچانے کے لیے ن لیگ کے ساتھ تھی اس نے ن لیگ کے خلاف بھی سیاست کی، جب پاناما آیا تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے تھے، سینئر تجزیہ کار

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کچھ دیر میں الیکشن مہم کا وقت ختم ہو رہا ہے۔

فوزیہ قصوری نے کہا کہ بلاول بھٹو کی والدہ اگر آج حیات ہوتیں تو وہ ضرور اپنے بیٹے کی زبردست محنت اور جذبے پر فخر کرتیں۔

واضح رہے کہ آن لائن ٹکٹ بکنگ کی ویب سائٹ پر شام 5 بجے سے آن لائن ٹکٹ کی بکنگ شروع ہونا تھی۔

فافن کا کہنا ہے کہ آبزرورز کو پولنگ عمل سے قبل اور اس کے دوران مشاہدہ کاری کیلئے رسائی فراہم کی جائے،

سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ہم صحافی ہیں، ہمیں آئیڈیل کی بات کرنی پڑتی ہے۔

QOSHE - یاسر پیر زادہ - یاسر پیر زادہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یاسر پیر زادہ

31 12
07.02.2024

ایک سیاستدان اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھاتو کسی صحافی نےاُس سے شراب سےمتعلق پالیسی کے بارے میں پوچھا، سیاستدان نے جواب دیا کہ’’اگر آپ کی مراد اُس شیطانی مشروب سے ہے جو جسم میں زہربھر دیتا ہے، دماغ کو برباد کرتا ہے، خاندان کو تباہ کرتا ہے اور جرائم کا سبب بنتا ہے، تو میں اس کے سخت خلاف ہوں! لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ وہ مشروب شادی کےموقع پر جشن منانے کے لیے پیا جاتا ہے، ویک اینڈ پر دوستوں کی محفل میں اُس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہےاور اُس کی فروخت سے حاصل ہونے والا ٹیکس ضرورت مند یتیموں پر خرچ کیا جاتا ہے، تو میں اس مشروب کےحق میں ہوں! اور میں اپنی رائےنہیں بدلوں گا، چاہے آپ کچھ بھی کہیں۔‘‘

دنیا بھر میں سیاستدانوں کے لطیفے مشہور ہیں اور یہ اسی قسم کا ایک لطیفہ ہے۔اِس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے ملک میں بھی بالآخر انتخابی ماحول بن رہا ہے ، موسم تو سردی کا ہے مگر سیاست گرم ہے ،اِن حالات میں اچھے خاصے دوست بھی بعض اوقات سیاسی بحث کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا دوستوں کی محفل میں ضروری ہے کہ بحث کو ہلکے پھلکے انداز میں لیا جائے، ایک دوسرے کو نشتر سے گدگدی تو کی جائے مگر خیال رہے کہیں آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ اب تو خیر انتخابات یقینی ہیں مگر عموماً جب بھی پاکستان میں انتخابات کا موسم قریب آتاہے تو ایک سوال سے مجھے بے حد چِڑ ہوتی ہے ۔’’کیا الیکشن ہوں گے؟‘ ‘گزشتہ بائیس برسوں میں ملک میں چار انتخابات ہوئے یعنی کہ ہر پانچ سال بعد انتخاب ،مگر بے اعتباری ایسی ہے کہ ہر مرتبہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید اب کی بار نہیں ہوں گے۔لیکن اِس دفعہ تو حد ہوگئی ،انتخابات واقعی مقررہ وقت پر نہیں ہوئے،لیکن کوئی بات نہیں، چند ماہ کی تاخیر سے ہی سہی،ہوتو رہے ہیں۔عوام اپنے انتخابی حق کے بارے کافی حساس واقع ہوئے ہیں ،انہیں جب یہ حق نہیں ملتا تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگرجب ملتا ہے تو اِس قدر بےپروائی سے استعمال کرتے ہیں کہ پھرآئندہ پانچ برس تک سر پر ہاتھ رکھ........

© Daily Jang


Get it on Google Play