ووٹنگ کے تازہ ترین اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی صنفی فرق ایک دہائی میں پہلی بار 10ملین سے بھی کم رہ گیا ہے جو کسی کامیابی سے کم نہیں. ریکارڈ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 128ملین تک بڑھ گئی ہے، اس میں بطور ووٹر رجسٹرڈ مردوں کی تعداد 69.26ملین ہے جبکہ کل ووٹرز میں خواتین کی تعداد 59.32 ملین ہے. جس سے انتخابی صنفی فرق عددی لحاظ سے 9.94ملین پر مشتمل ہے. جو ایک خوش آئند بات ہے۔ حالیہ جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق مرد کل ووٹرز کا تقریباً 53.9فیصد ہیں، جبکہ خواتین ووٹرز کا حصہ 46.1فیصد ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے وقت مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق 9.7ملین تھا,جو 2013ء کے انتخابات کے دوران بڑھ کر 11ملین ہو گیا2018ء کے انتخابات کے دوران اس فرق میں مزید اضافہ ہوا، 12.49ملین تک پہنچ گیا نومبر 2021ء میں انتخابی صنفی فرق 11.81ملین رہا، پچھلی دہائی کے بیشتر حصے میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا چلا گیا اس حوالے سے تازہ جاری کیے گئے اعداد وشمار کافی حوصلہ افزا ہیں۔ خواتین ووٹرز کی کم شرکت کا مسئلہ، تاریخی طور پر، ہمارے جمہوری عمل کو مضبوط کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ رہا ہے. خواتین ملک کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہیں، اسلئے انتخابی صنفی فرق 10ملین سے نیچے گرنے کے باوجود، مجموعی تصویر اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ملک کے کئی حصوں میں، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں میں اور چند بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں، حالیہ انتخابات کے دوران خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی ، اس محاذ پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے کیونکہ انہوں نے سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت پر ان غیر رسمی پابندیوں کو آسانی سے قبول کر لیا، جب کے پی پی پی واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ اس اقدام کی مخالفت کی اور کرتی آرہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے کردار کی تشکیل میں رجعت پسند اصولوں نے اہم کردار ادا کیا ہے. روایتی صنفی کردار اکثر خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رکھتے ہیں، عوامی معاملات میں انکی شمولیت کو محدود کرتے ہیں، اسکے علاوہ، عوامی مقامات میں خواتین کی موجودگی کو منفی طور پر دیکھنے کے اس عمل کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد CNIC کے بغیر رہ جاتی ہے، ملک میں 10ملین سے زائد خواتین کے پاس یہ اہم دستاویز نہیں ہے جس کے بغیر انہیں بطور ووٹر رجسٹر نہیں کیا جا سکتا، لاکھوں خواتین اس وجہ سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فوائد حاصل کرنے سے بھی محروم رہ گئیں ہیں کہ انکے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں تھا۔ عوامی زندگی میں خواتین کے کردار کے بارے میں معاشرتی رویوں کو نئی شکل دینے کیلئے ایک کثیر جہت نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی جس میں رجعت پسند رویوں کیخلاف مربوط تعلیم اور بیداری کے پروگراموں کے ذریعہ ذہنیت میں تبدیلی کو فروغ دینا شامل ہے تاکہ ایسی سوچ جو خواتین کی ترقی کی حوصلہ شکنی کرتی ہو اسکا معاشرے سے خاتمہ ہو سکے، سیاسی جماعتوں کو اپنے حلقوں کے ان حصوں کو مطمئن کرنا بند کرنا چاہئے جو عوامی مقامات پر خواتین کے داخلے کے حوالے سے رجعت پسندانہ خیالات رکھتے ہیں. پاکستان ایک جدید، ترقی پسند، جمہوری ریاست نہیں بن سکتا جب تک کہ خواتین سیاسی عمل میں اپنا مناسب کردار ادا نہ کریں, واضح رہے کہ سیاسی میدان میں خواتین کی نمائندگی کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ اسکے نتیجے میں جو قانون سازی اور پالیسیاں سامنے آتی ہیں وہ انکی ضروریات کو پوری طرح پورا نہیں کرتیں پوری آبادی کی خواتین کے مسائل پر اکثر ناکافی توجہ ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں خواتین ترقی کی دوڑ سے باہر ہوجاتی ہیں۔یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے غیر معینہ مدت تک غالب نہیں آنے دیا جا سکتا. انتخابی صنفی فرق 10ملین سے نیچے گرنے کیساتھ، اس بہتری کو آگے بڑھانے اور رجعت پسند اصولوں اور امتیازی طریقوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین معاشرے میں آگے بڑھ سکیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ کم از کم 10 فیصد جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو انتخابی ٹکٹ دیں اور یہ لازم ہونا چاہئے کہ ہر جماعت کم از کم 10فیصد صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دے گی جس سے یقینی طور پر معاشرے میں ایک نئی سوچ پروان چڑھے گی اور خواتین کو ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔

ایران نے جاپانی ٹینکر پر ڈرون حملے کا امریکی الزام مسترد کرتے ہوئے اسے بےکار قرار دیا ہے۔

میلبرن میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم میں محمد رضوان، حسن علی اور میر حمزہ کو شامل کیا گیا ہے۔

روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے کو مکمل آزاد کرانے سے روسی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔

ورجینیا میں فلسطینی حامی مظاہرین نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے گھر کے باہر احتجاج کیا۔

رہنماؤں نے پنجاب میں انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کی۔

مردان میں تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللّٰہ کرے یہ بات غلط ہو لیکن شاید ہمارے خلاف بھی فیصلہ کرنا پڑے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس نے دنیا بھر میں بڑھتے المناک تنازعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ افسوس ہے کہ سائفر کے معاملے کو بھی سیاست اور لیول پلیئنگ فیلڈ کی نذر کیا گیا۔

پنجاب کے میدانی علاقوں میں آج رات بھی دھند چھا گئی، حد نگاہ انتہائی کم ہونے کے باعث موٹر ویز کو مختلف مقامات سے بند کردیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ رنبیر اور عالیہ کی بیٹی کے ساتھ لی گئی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی ہیں۔

نگراں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا ہے کہ ایس ایس پی عرفان سموں صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

ترجمان حماس نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں، اگر چور گھر میں آ جائے تو کیا ہم اس کو اپنے گھر کا حصہ دار بنائیں گے؟

ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو رضا موسوی کے قتل کی قیمت چکانی ہوگی۔

اسرائیل نے دمشق کے علاقے پر حملہ کیا ہے، ایرانی ٹی وی کے مطابق حملے میں جنرل سلیمانی کے ساتھی ایرانی کمانڈر جاں بحق ہوئے ہیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک نا جائز ریاست ہے، فلسطین کی حمایت کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ الیکشن میں ہمارا کسی سے اتحاد نہیں ہے۔

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

12 1
26.12.2023

ووٹنگ کے تازہ ترین اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی صنفی فرق ایک دہائی میں پہلی بار 10ملین سے بھی کم رہ گیا ہے جو کسی کامیابی سے کم نہیں. ریکارڈ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد 128ملین تک بڑھ گئی ہے، اس میں بطور ووٹر رجسٹرڈ مردوں کی تعداد 69.26ملین ہے جبکہ کل ووٹرز میں خواتین کی تعداد 59.32 ملین ہے. جس سے انتخابی صنفی فرق عددی لحاظ سے 9.94ملین پر مشتمل ہے. جو ایک خوش آئند بات ہے۔ حالیہ جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق مرد کل ووٹرز کا تقریباً 53.9فیصد ہیں، جبکہ خواتین ووٹرز کا حصہ 46.1فیصد ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے وقت مرد اور خواتین ووٹرز کے درمیان فرق 9.7ملین تھا,جو 2013ء کے انتخابات کے دوران بڑھ کر 11ملین ہو گیا2018ء کے انتخابات کے دوران اس فرق میں مزید اضافہ ہوا، 12.49ملین تک پہنچ گیا نومبر 2021ء میں انتخابی صنفی فرق 11.81ملین رہا، پچھلی دہائی کے بیشتر حصے میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا چلا گیا اس حوالے سے تازہ جاری کیے گئے اعداد وشمار کافی حوصلہ افزا ہیں۔ خواتین ووٹرز کی کم شرکت کا مسئلہ، تاریخی طور پر، ہمارے جمہوری عمل کو مضبوط کرنے میں ہمیشہ رکاوٹ رہا ہے. خواتین ملک کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہیں، اسلئے انتخابی صنفی فرق 10ملین سے نیچے گرنے کے باوجود، مجموعی تصویر اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ملک کے کئی حصوں میں، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور سابقہ قبائلی علاقوں میں اور چند بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں، حالیہ انتخابات کے دوران خواتین کو ووٹ ڈالنے کی........

© Daily Jang


Get it on Google Play