پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کی سیاست میں یہ ریت رہی ہے کہ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں منشور کا اعلان کرتی ہیں اور اس منشور پر عمل درآمد کرنے کے وعدے بھی ہوتے ہیں، حالانکہ منشور سازی میں عوام اور سیاسی ورکرز کا عمل دخل ضروری ہے مگر تمام سیاسی جماعتیں دو ،چار رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر منشور کا اعلان کردیتی ہیں اور پھر یہ کمیٹی پچھلے منشور کو اٹھا کر الفاظ کے ہیر پھیر کے بعد نیا منشور بنا دیتی ہے۔ انتخابی منشور ایک اہم دستاویز ہے جسے سیاسی جماعتیں ووٹروں کے ساتھ نظریاتی تعلق قائم کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس میں ترجیحات اور پالیسیوں کی فہرست دی جاتی ہے جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے پر اپنے وسیع تر اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی وژن کے تعاقب میں عمل درآمد کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ انتخابات ختم ہونے کے بعد، ووٹر پارٹی رہنماؤں کو ان وعدوں کی یاد دلانے کیلئے منشور کا استعمال کر سکتے ہیں جو انھوں نے ووٹرز سے کیے تھے، اور انھیں ان کی کوتاہی اور منشور پر عمل درآمد نہ کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کا یہ عجیب مخمصہ ہے کہ تقریباً ہر پارٹی کا منشور محض بیانات پر مشتمل ہوتا ہے، منشور کو پریس کانفرنس اور کتابچے کی شکل میں باقاعدہ طور پر شائع کیا جاتا ہے، مگر آج تک تمام سیاسی جماعتوں نے جتنے بھی منشور عوام کے سامنے رکھے ہیں، یہ اہم معاشی، آئینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے بغیر بنائے گئے ہیں، ہر منشور میں ایک وعدہ کیا جاتا رہا ہے کہ بند ہونے والی صنعتوں اور کارخانوں کو دوبارہ بحال کیا جائے گا، لیکن پچھلے 15 سال میں اچھی خاصی چلتی پھرتی پی آئی اے اور اسٹیل ملز کا جو حال ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ جب یہ منشور بناتی ہیں تو ہر سیاسی جماعت میں برسوں سے 4 یا 5 لوگ ہیں جن کو یہ ذمے دارے سونپی جاتی ہے کہ وہ منشور بنائیں یعنی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے خاکہ تیار کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس پروفیشنل حضرات کی شدید کمی ہے، منشور بناتے وقت کسی سوشل سائنٹسٹ، کسی معاشی گرو، کسی شعبہ صحت کے ماہر، کسی ماہر نفسیات کو شامل ہی نہیں کیا جاتا، اب دیکھیں منشور میں صحت کے باب کو وہ شخص بنارہا ہے جس نے پوری زندگی صحت کے شعبے میں کوئی کام ہی نہیں کیا یا وہ آغا خان اسپتال تو جاتا ہے مگر سول اسپتال کی یا لاہور کے جناح اسپتال یا پھر خیبرپختونخوا کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کی شکل تک نہیں دیکھی ہے۔ وہ انتخابی منشور میں شعبہ صحت کا باب لکھے گا تو کیا خاک منشور پر عمل درآمد ہوگا ؟یہ ہی حال شعبہ تعلیم کا ہے کہ جس شخص نے گائوں کے سرکاری اسکول کو گزشتہ 20 سال سے دیکھا ہی نہیں وہ انتخابی منشور میں ماہر تعلیم کی جگہ لے لیتا ہے۔ اور غربت مٹائو پروگرام کا حصہ منشور میں وہ لوگ لکھتے ہیں جو خود غربت بڑھائو پروگرام کا حصہ رہے ہیں، کیا کبھی قیصر بنگالی، ڈاکر عشرت یا دیگر معاشی ماہرین سے کبھی کسی منشور میں کوئی Input لی گئی؟ یہ ہی وجہ ہے کہ منشور میں ایسے وعدے کیے جاتے ہیں جن پر عمل درآمد نا ممکن ہوتا ہے۔ انتخابی منشور میں جھوٹے وعدےایک ریت بن چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور کے نکات پڑھیں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو صرف دھوکے ہی ملیں گے۔ سیاسی منشور کے بعد انتخابی مہم میں سیاسی رہنما ملک کو درپیش مسائل کا حل بتانے اور اپنا پروگرام بتانے کے بجائےذاتی رنجشوں، اپنی قربانیوں ، اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ایک دوسرے پرتنقید کرتے نظر آتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد سیاست سےدور ہوگئی ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کا استعمال ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کو ان پر مسلط کرنے کا ایک حربہ ہے۔ اسلئے عوام سیاسی جماعتوں پر یقین سے زیادہ فوجی اقتدار پر یقین رکھتے ہیںجو درست سوچ نہیں کیوں کہ پاکستان کو صرف جمہوریت ہی ترقی دے سکتی ہے مگر ایسی جمہوریت جس پر چند خاندانوں کا راج نہ ہو۔لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سیاست سے بالعموم اور بالخصوص انتخابی مشقوں سے مایوس ہو رہی ہے، کیوں کہ منشور کے نام پر دھوکے ہوتے رہے تو اس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا، سیاسی جماعتوں کو جلد نئے منشور کا اعلان کرتے ہوئے عوام کو بتانا ہوگا کہ وہ پہلے 6 ماہ میں کس طرح مہنگائی کم کریں گی، کیسے بے روزگاری کا خاتمہ کریں گی۔ عوام کو صرف منشور نہیں حل بھی بتانا ہوگا اور اس حل پر عمل درآمد بھی کرنا ہوگا کیوں کہ اب منشور کے نام پر مزید دھوکہ نہیں ہونا چاہئے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق اوپن اے آئی کی جانب سے کمپنی کے بانیوں میں سے ایک سیم آلٹمین کو واپس نہ لینے پر ادارے میں افراتفری مچ گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہے تو توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ایران سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے۔

حکام کے مطابق گاڑی میں کالے شیشوں کے استعمال اور اسلحہ کی نمائش پر بھی پابندی ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ مرمتی کام آج صبح 9 سے رات 9 بجے تک جاری رہے گا۔

اسرائیل نے جنوبی افریقا سے اپنا سفیر واپس بلالیا، اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سفیر کو مشاورت کے لیے بلایا ہے۔

کنوینئر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان خالد مقبول صدیقی کی والدہ انتقال کر گئی، نماز جنازہ آج ادا کی جائیگی۔

لاہور ہائیکورٹ نے سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس کے مجرم عابد ملہی اور شفقت بگا کی سزائے موت کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں، دو رکنی ببنچ آج سماعت کرے گا۔

ذرائع کے مطابق یہ اضافہ اکتوبر 2023 کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ آمنہ ملک نے تسلیم کیا ان کے جسٹس سردار طارق پر لگائے الزامات میں صداقت نہیں۔

زلفی بخاری نے خاور مانیکا کو بد دیانت انسان کہہ دیا۔

برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت 2027 میں ورلڈکپ بھی 10 ٹیموں کا کروانا چاہتا ہے۔

ہولینڈ سے تعلق رکھنے والی کک (باورچن) کو اپنے دوستوں کے لیے تیار کردہ بھنگ ملا، اسپیس کیک تیار کرنا مہنگا پڑ گیا اور انکے خلاف مقدمہ کر دیا گیا۔

امریکی اداکارہ و ماڈل نرگس فخری جنھوں نے بھارت کی ہندی فلموں میں کام کرکے کافی شہرت کمائی انھوں نے حال ہی میں اداکار رنبیر کپور اور شاہد کپور کے ساتھ ڈیٹنگ کے افواہوں کی تردید کی ہے۔

سوشل میڈیا پر مچل مارش کی ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جسے آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے انسٹاگرام پر شیئر کیا تھا۔

آسٹریلیا نے ورلڈکپ کے فائنل میں بھارت کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔

کنوینئر ایم کیو ایم خالد مقبول صدیقی کی والدہ انتقال کرگئیں۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کے مطابق خالد مقبول صدیقی کی والدہ کی نمازجنازہ کل بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔

QOSHE - محمد خان ابڑو - محمد خان ابڑو
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

محمد خان ابڑو

9 1
21.11.2023

پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کی سیاست میں یہ ریت رہی ہے کہ انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں منشور کا اعلان کرتی ہیں اور اس منشور پر عمل درآمد کرنے کے وعدے بھی ہوتے ہیں، حالانکہ منشور سازی میں عوام اور سیاسی ورکرز کا عمل دخل ضروری ہے مگر تمام سیاسی جماعتیں دو ،چار رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر منشور کا اعلان کردیتی ہیں اور پھر یہ کمیٹی پچھلے منشور کو اٹھا کر الفاظ کے ہیر پھیر کے بعد نیا منشور بنا دیتی ہے۔ انتخابی منشور ایک اہم دستاویز ہے جسے سیاسی جماعتیں ووٹروں کے ساتھ نظریاتی تعلق قائم کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس میں ترجیحات اور پالیسیوں کی فہرست دی جاتی ہے جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے پر اپنے وسیع تر اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی وژن کے تعاقب میں عمل درآمد کرنے کا اعلان کرتی ہیں۔ انتخابات ختم ہونے کے بعد، ووٹر پارٹی رہنماؤں کو ان وعدوں کی یاد دلانے کیلئے منشور کا استعمال کر سکتے ہیں جو انھوں نے ووٹرز سے کیے تھے، اور انھیں ان کی کوتاہی اور منشور پر عمل درآمد نہ کرنے پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کا یہ عجیب مخمصہ ہے کہ تقریباً ہر پارٹی کا منشور محض بیانات پر مشتمل ہوتا ہے، منشور کو پریس کانفرنس اور کتابچے کی شکل میں باقاعدہ طور پر شائع کیا جاتا ہے، مگر آج تک تمام سیاسی جماعتوں نے جتنے بھی منشور عوام کے سامنے رکھے ہیں، یہ اہم معاشی، آئینی، سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے بغیر بنائے گئے ہیں، ہر منشور میں ایک وعدہ کیا جاتا رہا ہے کہ بند ہونے والی صنعتوں اور کارخانوں کو دوبارہ بحال کیا جائے گا، لیکن پچھلے 15 سال میں اچھی خاصی چلتی پھرتی پی آئی........

© Daily Jang


Get it on Google Play