پاکستان بنا تو دینا ناتھ نے لاہور چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے رشتہ دار اور احباب اسے بھارت لے جانے کی کوشش میں رہے۔ پھر ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ دینا ناتھ بھی سمتھ سن کی طرح 5کوئنز روڈ والے بنگلے اور لاہور کی محبت کا اسیر تھا۔ اس نے کچھ لوگوں کے مشورے پر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے اپنا نام ڈی ایل احمد، یا ڈی این احمد بتانا شروع کر دیا۔ بیرون شہر کا یہ علاقہ فسادات سے کسی حد تک محفوظ تھا۔ دینا ناتھ خود بھی احتیاط کرتا۔ وہ گھر سے باہر کم ہی نکلتا۔ ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ بنگلے کے دو حصے کر دیے جائیں۔ ایک حصہ اس نے اپنے دوست امیر شاہ کو دیدیا۔دینا ناتھ کا خیال تھا کہ امیر شاہ کا خاندان مقامی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک طرف اس کی حفاظت کرے گا اور دوسری طرف اس کا ممنون احسان رہے گا۔ امیر شاہ کے دو بچے تھے۔ دونوں جوان تھے۔ بیٹا جاوید اور بیٹی روبینہ۔ دینا ناتھ کی پوری اولاد کا تو علم نہیں لیکن اس کا بیٹا ہریش مہرہ کئی وجوہات سے اہل لاہور کے لئے اجنبی نہیں۔ جانے وہ کیا حالات تھے کہ جلد ہی امیر شاہ اور دینا ناتھ کے درمیان اختلافات ہو گئے۔ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ بول چال بند ہو گئی۔ دوستی کا جذبہ ختم ہو گیا۔ اس صورتحال نے دینا ناتھ کو توڑ دیا۔ وہ خود کو تنہا اور غیر محفوظ سمجھنے لگا۔ گھر سے نکلنا بالکل ختم ہو گیا۔ یہاں تک کہ اردگرد کے لوگ سمجھنے لگے کہ وہ مر گیا ہے۔ اس دوران اسے کئی دوسرے صدمے برداشت کرنا پڑے۔ اس کی اہلیہ ’’جانو‘‘ کو اغوا کر لیا گیا۔ ایک روز دینا ناتھ کا دل کیا کہ گھر سے نکل کر باہر کی روشنی دیکھے۔ وہ ضروری معاملات کے لئے لوگوں کو گھر ہی بلا لیا کرتا تھا۔ اس روز گیٹ کے سامنے کھڑا تھا کہ اسے چاقو گھونپ دیا گیا۔ بوڑھا آدمی تھا‘ زخم کاری رہا۔ امیر شاہ کا بیٹا جاوید بول چال بند ہونے کے باوجود خوفزدہ خاندان کی مدد کو آگے بڑھا اور دینا ناتھ کو ہسپتال پہنچایا۔ دینا ناتھ جانبر نہ ہو سکا۔ اس کے قتل کے بعد اس کی اولاد بھارت بھاگ گئی۔ ایک بیٹا ہریش مہرہ کچھ مدت مزید یہاں رہا۔ میرے ساتھی ذوالفقار چودھری کا خاندان اس زمانے میں 5کوئنز روڈ کے احاطے میں بننے والے کئی مکانات میں سے ایک کا مکین تھا۔ ذوالفقار چودھری بتاتے ہیں کہ یہاں کے ایک ہندو ملازم کی سالی نے اسلام قبول کر کے ایک مقامی شخص غلام رسول سے شادی کر لی۔یہاں مقیم ایک ہندو ملازم کے دو بیٹے روشن اور ہیرا تھے۔ایک بیٹی بملا تھی جو لاہور سے ایف ایس سی کر چکی تھی۔ بملا ذوالفقار چودھری کو گود میں کھلاتی رہی ہے۔ ذوالفقار چودھری کا کہنا ہے کہ بہت سال پہلے ان کا بملا سے رابطہ ہوا تھا۔ وہ دہلی کے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہی تھی۔ بملا اگر زندہ ہو تو اس وقت اس کی عمر 67برس کے قریب ہونی چاہیے۔ ہریش مہرہ کا خاندان 1973-74ء تک 5کوئنز روڈ والے بنگلے میں رہا۔ دینا ناتھ کے بیٹے لاہور میں سنار کا کام کرتے تھے۔ وہ زیورات بناتے۔ ایک کہانی یہ بھی ہے کہ کسی لین دین کے معاملے میں ان کا جھگڑا ہوا اور فریق مخالف نے گیٹ پر کھڑے دینا ناتھ کو مار دیا۔ امیر شاہ کے فرزند جاوید شاہ کی ملازمت اقوام متحدہ میں ہو گئی۔ وہاں ان کی ملاقات ایک ڈچ خاتون سے ہوئی۔ جلد ہی دونوں نے شادی کر لی۔ جاوید شاہ کچھ عرصہ اسلام آباد رہے۔ ان کی بیٹی ثریا خان نے بچپن کا کچھ حصہ اسلام آباد والے گھر میں گزارا۔ ثریا خان ان دنوں نیویارک میں مقیم ہیں اور تین انگریزی ناول لکھ چکی ہیں۔ مجھے ان کے خاندان اور بنگلے کے متعلق آزادی کے بعد کی معلومات ثریا خان کی یادداشتوں پر مبنی ناول ’’5کوئنز روڈ‘‘ سے ملیں لیکن وہ دینا ناتھ کے ساتھ اختلافات کی وجہ نہ جان سکیں۔ دینا ناتھ کے قتل کی وجوہات پر بھی امیر شاہ اور جاوید شاہ ابہام کا شکار تھے۔ ثریا خان نے ایک تصویر کتاب کا حصہ بنائی ہے جس میں وہ اپنے دادا امیر شاہ کی گود میں 5کوئنز روڈ والی رہائش میں ایک درخت کے سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھی ہیں‘ ساتھ ان کی دادی تھیں۔ ثریا خان کی پیدائش آسٹریا کی ہے۔ اسلام آباد میں پرورش پائی اور اب نیو یارک میں مقیم ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں انہیں ایک اہم ادبی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ وہ وطن کے موضوع اور تصور پر اپنی زندگی کو سامنے رکھ کر بہت منفرد گفتگو کرتی ہیں۔ ثریا خان اپنی قدوقامت اور نقوش سے اگرچہ غیر ملکی لگتی ہیں لیکن ان کے دل میں لاہور کی محبت تحریر کی صورت میں جھلکتی ہے۔ ایک بار وہ اپنے بچوں کو آبائی گھر دکھانے لاہور آئیں۔ ڈرائیور کو ایئر پورٹ سے ایڈریس سمجھانے میں ذرا دقت نہ ہوئی۔ اس جگہ کو ہر کوئی جانتا ہے ۔ لیکن ایک مشکل ہوئی کہ 5کوئنز روڈ میں کئی گھر‘ دفتر‘ ورکشاپیں اور دکانیں بن چکی ہیں۔ ان سب نے اس رہائشی حصے کو چھپا دیا ہے جہاں ثریا خان نے اپنے دادا امیر شاہ کی گود میں بیٹھ کر تصویر بنائی تھی۔ ذوالفقار چودھری بتاتے ہیں کہ اس احاطے میں ایک ہندو خاتون رہتی تھیں جو بچوں کے لئے گولیاں ٹافیاں اور پرچون کا سودا فروخت کرتیں۔لاہور بورڈ کے پاس یہ دکان موجود ہے لیکن اب غلام رسول کا بیٹا یہاں پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔ اس ہندو خاتون کا نام جانے کیا تھا لیکن لوگ انہیں ’’خالہ‘‘ کہہ کر بلاتے۔ غلام رسول فارغ اوقات میں تاش کھیلنے کا شوقین تھا۔ اس نے علاقے کے بہت سے دوستوں کے ساتھ گویا ایک تاش کلب بنایا ہوا تھا۔ فارغ لوگ تاش کھیل کر وقت گزارتے۔ (جاری ہے)
QOSHE - 5 کوئنز روڈ (2) - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

5 کوئنز روڈ (2)

7 0
05.12.2023




پاکستان بنا تو دینا ناتھ نے لاہور چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کے رشتہ دار اور احباب اسے بھارت لے جانے کی کوشش میں رہے۔ پھر ایک ایک کرکے سب چلے گئے۔ دینا ناتھ بھی سمتھ سن کی طرح 5کوئنز روڈ والے بنگلے اور لاہور کی محبت کا اسیر تھا۔ اس نے کچھ لوگوں کے مشورے پر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے اپنا نام ڈی ایل احمد، یا ڈی این احمد بتانا شروع کر دیا۔ بیرون شہر کا یہ علاقہ فسادات سے کسی حد تک محفوظ تھا۔ دینا ناتھ خود بھی احتیاط کرتا۔ وہ گھر سے باہر کم ہی نکلتا۔ ایک روز اسے خیال آیا کہ کیوں نہ بنگلے کے دو حصے کر دیے جائیں۔ ایک حصہ اس نے اپنے دوست امیر شاہ کو دیدیا۔دینا ناتھ کا خیال تھا کہ امیر شاہ کا خاندان مقامی اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک طرف اس کی حفاظت کرے گا اور دوسری طرف اس کا ممنون احسان رہے گا۔ امیر شاہ کے دو بچے تھے۔ دونوں جوان تھے۔ بیٹا جاوید اور بیٹی روبینہ۔ دینا ناتھ کی پوری اولاد کا تو علم نہیں لیکن اس کا بیٹا ہریش مہرہ کئی وجوہات سے اہل لاہور کے لئے اجنبی نہیں۔ جانے وہ کیا حالات تھے کہ جلد ہی امیر شاہ اور دینا ناتھ کے درمیان اختلافات ہو گئے۔ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ بول چال بند ہو گئی۔ دوستی کا جذبہ ختم ہو گیا۔ اس صورتحال نے دینا ناتھ کو توڑ دیا۔ وہ خود کو تنہا........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play