آنکھوں کے کٹوروں کو چھلکائے ہوئے رہنا بھیگے ہوئے دامن کو پھیلائے ہوئے رہنا جو آنکھیں سوالی ہوں اور خوابوں سے خالی ہوں ان آنکھوں کی قسمت ہے پتھرائے ہوئے رہنا اس غزل کا ایک اور شعر کہ بے فیض ہے یہ دنیا کیا اس سے طلب کرنا۔ اپنا ہی لہو پینا غم کھائے ہوئے رہنا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ منیر نیازی کہ جنہیں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی شاعری کا خان اعظم کہتے تھے کی 26 دسمبر کو 17ویں برسی تھی اور مندرجہ بالا غزل کے اشعار انہی کی نذر تھے کہ ان کی زمیں میں یہ خراج تحسین ہے۔ ویسے بھی ان کی متعلقہ غزل آن کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ میرا دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ میں نے ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارا۔ ان کی شاعری کو بھی ان کے حوالے سے جانا آپ بھی اس غزل کے دو تین اشعار دیکھ لیں: عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا ایک مطلع اور ایک شعر: بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا میں کوئی سلیبس والا کالم نہیں لکھوں گا۔ان کے ساتھ شب و روز گزرا ہے کہ مجھے ان کا کریز تھا۔ ان کے ساتھ مشاعروں میں جاتا۔ وہ کہیں سے نظم بھولتے تو میں لقمہ دے دیتا ہے ۔ایک مسکراہٹ ان کے سفید و سرخ چہرے پر آ جاتی۔ایک نظم کی آخری دو لائنیں مجھے بہت پسند آئیں تو میں نے نیازی صاحب سے پوچھا کہ کیا میں ’’مجھے‘‘ کی جگہ ’’منیر‘‘ لگا دوں۔ انہوں نے کہا ہاں تم لگا سکتے ہو پھر ایسے ہی ہوا ان کی نظم کے آخری دو مصرعے ایک فرد بن گئے اور آج تک اسی طرح مشہور ہیں۔ حسن تو بس دو طرح کا خوب لگتا ہے منیر آگ میں جلتا ہوا یا برف میں سویا ہوا منیر نیازی کے ساتھ مکالمہ رہتا جب میں ایم اے انگریزی کر رہا تھا تو ان کے پاس چلا آتا اور وہ کبھی بھی انگریزی ڈرامہ یا ناول طلب کرتے ڈاک میں آئی ہوئی کتابیں بھی مجھے تھما دیتے کہتے کہ میں نے تو میر اور غالب بھی اٹھا دیے ہیں کہ ان کو پڑھ کر متاثر نہ ہو جائوں وہ منفرد تھے اور ان کی باتیں بھی منفرد۔ لوگ ان پر نرگسیت کا اثر کہتے ایک نخرہ تھا ان میں اور ان پر جچتا بھی تھا۔ ایک دن ہم گاڑی پر جا رہے تھے گاڑی رکوا کر کہتے ہیں سعداللہ شاہ بتائو میرے بغیر کوئی مشاعرہ سجتا ہے؟ میں نے فوراً کہا ہرگز نہیں ڈرائیور سے کہنے لگے گاڑی چلائو۔ مجھ سے نوجوان شاعر نے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ غالب کو بھی نہیں مانتے تھے ایک دفعہ منوں بھائی نے بھی کسی سے کہا تھا کہ منیر نیازی سے ملنے جا رہے ہو تو وہاں غالب کی بھی تعریف نہ کرنا کہ وہ برا مان جاتے ہیں۔ ویسے مجھے تو منیر نیازی نے خود کہا کہ کسی نے ان کی شاعری کو خالص سونا کہا ہے دوسرے لفظوں میں غالب تو بیدل سے بھی متاثر ہے۔ ویسے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے بھی تو میر کو اوریجنل کہا غالب کو نہیں خیر باقی رہی بات خود پرستی کی تو دو اشعار ہیں لکھے دیتا ہوں نیازی صاحب کے: بے یقین سوچاں وچ بے یقین ہو جاندے سانوں خود پرستی نے شُہر توں بچا دتا شاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندر جیویں اک حقیقت نوں وہم وچ لُکا دتا ایک خاص بات یہ کہ منفرد اور مقبول ہونے کے باعث ان کی مخالفت بہت تھی۔آپ ان کی کتابوں کے نام دیکھ لیں تیز ہوا اور تنہا پھول اور دشمنوں کے درمیان شام یعنی وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ شاعری انہیں مقدم ہے وہ چنیدہ ہیں ۔اس کا تذکرہ وہ اکثر کرتے کہ وہ معلوم کی شاعری نہیں کرتے بلکہ نامعلوم سے معلوم کی طرف سفر کرتے ہیں ایک لمحے کے لئے آپ ان کی کتابوں کے انتساب دیکھیں اور سوچیں تو حیران رہ جائیں مثلاً ماہ منیر کا انتساب حضرت محمد ﷺ کے نام ہے: میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے مجھے یاد آیا کہ جب ان کی کلیات چھپ کر آئے تو ایک کاپی محبت کے ساتھ مجھے دی۔ جمال بیٹھتا تھا۔ باہر جا کر کہتا ہے کہ پیسے آپ نے دینے تھے میں نے حیرت سے پوچھا کس بات کے یہ تو مجھے تحفہ ملا ہے وہ کہنے لگا کہ منیر نیازی تو مفت میں کسی کو داد بھی نہیں دیتے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ تذکرہ میں ناہید منیر نیازی کا بھی کر دوں کہ خان صاحب کو انہوں نے بہت آسائش پہنچائی۔ ہر قدم پر خیال رکھا۔ہر سال ہم ان کے گھر برسی بھی مناتے ہیں۔ نیازی صاحب کی زندگی میں سالگرہ منایا کرتے تھے ان کا بھتیجا عامر نیازی انتظام کرتا ہے خاص طور پر شجاعت ہاشمی‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف نیلما ناہید درانی صوفیہ بیدار نور حسن ڈاکٹر خالدہ تو ان کی غزل بھی گاتیں شہر بھر میں ان پر پروگرام بھی ہو رہے ہیں مجلس ترقی ادب نے بھی پروگرام کیا ہے پنجاب یونیورسٹی والے بھی دو روز کی تقاریب رکھ رہے ہیں وقت کیسے بیت جاتا ہے ان کے ساتھ آخری مشاعرہ 2006ء میں پڑھا تھا انجینئرنگ یونیورسٹی میں۔ ان کے کہے نغمے اب تک گونجتے ہیں جس نے میرے دل کو درد دیا اس شخص کو میں نے بھلایا نہیں یا زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا یا اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔
QOSHE - منیر نیازی کی 17ویں برسی - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منیر نیازی کی 17ویں برسی

11 0
31.12.2023




آنکھوں کے کٹوروں کو چھلکائے ہوئے رہنا بھیگے ہوئے دامن کو پھیلائے ہوئے رہنا جو آنکھیں سوالی ہوں اور خوابوں سے خالی ہوں ان آنکھوں کی قسمت ہے پتھرائے ہوئے رہنا اس غزل کا ایک اور شعر کہ بے فیض ہے یہ دنیا کیا اس سے طلب کرنا۔ اپنا ہی لہو پینا غم کھائے ہوئے رہنا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ منیر نیازی کہ جنہیں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی شاعری کا خان اعظم کہتے تھے کی 26 دسمبر کو 17ویں برسی تھی اور مندرجہ بالا غزل کے اشعار انہی کی نذر تھے کہ ان کی زمیں میں یہ خراج تحسین ہے۔ ویسے بھی ان کی متعلقہ غزل آن کے مزاج کی آئینہ دار ہے۔ میرا دعویٰ اس بنیاد پر ہے کہ میں نے ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارا۔ ان کی شاعری کو بھی ان کے حوالے سے جانا آپ بھی اس غزل کے دو تین اشعار دیکھ لیں: عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا ایک مطلع اور ایک شعر: بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا میں کوئی سلیبس والا کالم نہیں لکھوں گا۔ان کے ساتھ شب و روز گزرا ہے کہ مجھے ان کا کریز تھا۔ ان کے ساتھ مشاعروں میں جاتا۔........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play