رُبع صدی قبل جب داتاؒ دربار میں مرکز معارف ِ اولیاء کے نام سے ریسر چ سنٹر کی تشکیل کا اہتمام ہوا تو یہاں سے '' معارف ِ اولیائ'' کے نام ایک ریسرچ میگزین کی شروعات بھی ہوئیں، جس کا بنیادی مقصد صوفیاء کے احوال و افکار، اُن کی سیرت و کردار اور کارہائے نمایاں کی ترویج و تشہیر تھی، تاکہ سوسائٹی میں رَواداری، انسان دوستی، محبت آمیزی کا ابلاغ اور تشدّد، دہشت گردی اور انتہا پسندی، جیسے منفی جذبوں کا تدارک اور بیخ کنی ہو۔ متصوفانہ افکار کے فروغ پر مبنی یہ تحقیقی مجلہ اپنے اعلیٰ معیار طباعت و تحقیق کے سبب منفرد حیثیت کا حامل ہوا۔ دینی اور روحانی حلقوں کے ساتھ جدید دانشگاہوں اور اعلیٰ یونیورسٹیو ں کے ماہرین اور محققین کے تحقیقی اور تخلیقی مقالوں سے علم و ادب کے نئے دَروَا ہوئے، دریں اثناء اس پلیٹ فارم سے اُسوہء رسولﷺ کی تحقیق و ترویج کے خصوصی پراجیکٹس بھی تشکیل پائے اور ان کی طباعت و اشاعت پر متعدد قومی اعزازات فراواں ہوئے۔ اس مجلے کی 55 ویں اشاعت، جو بطور ِ خاص '' سیرت ِ رسول ِ اکرم ﷺ '' کے عنوان سے موسوم ہے، کا مسودہ مجلہ کے سب ایڈیٹر مشتاق احمد نے فراہم کرتے ہوئے، اس خصوصی اشاعت پر '' حرفِ محبت '' تحریر کرتے ہوئے، منصبی ذمہ داری کی بجا آوری کی طرف متوجہ کیا۔ یہ خوشگوار فریضہ میرے لیے ہمیشہ سعادت آفریں اور علم آ گیں ہوتا ہے اور میں اس امر کا بہت زیادہ قائل ہوں کہ لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے کے سَوتے کبھی خشک نہیں ہونے چاہیئں۔ بدقسمتی سے ہماری دفتری زندگی کا ناطہ تخلیق اور تحقیق سے منقطع ہوجانے کے سبب ادارے ویران اور منصب کھوکھلے ہوتے جار ہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی بھلائی اور راہنمائی کے لیے محض قرآنِ مجید یعنی کتاب ہدایت پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی بے پایاں عنایات اور فضل ِ خاص سے نبی اکرم ﷺ کے وجود ِ اطہر کی صورت میں انسانیت کو ایک '' رول ماڈل '' یعنی عملی نمونہ بھی عطا کیا،جن کی حیاتِ مبارکہ کو سیرت طیبہ کے نام سے موسوم کیاگیا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی ولادت باسعادت سے لے کر، آپﷺ کی حیات ِظاہر ی کے آخری لمحہ تک کی تفصیلات اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کہلاتی ہیں، اسی طر ح آپﷺکے اہلِ بیت اطہار، آلِ عظام اور صحابہ کرام سے متعلق امور بھی سیرت کے دائرہ میں شامل ہیں۔ ''سیرت'' کے لغوی معنٰی طریقہ کار، چلنا یا چلنے کی رفتار، انداز اور طریق و حالات کے ہیں۔ اندازِ زندگی، اسلوب ِ حیات، طرزِ زیست اور کردار کا معنی اور مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ابتدائی طور پر محدثین کے ہاں یہ لفظ ''غزوات'' کے ہم معنٰی کے طور پہ بھی مستعمل رہا۔عہدِ اوّلین کے سیرت نگار غزوات کو بہت اہمیت دیتے اور سیرت طیبہ کا بیان بھی غزوات کے ضمن میں قلمبند کرتے۔ابتداً محدثین نے بعض کتبِ حدیث میں کچھ ابواب رسالتمأبﷺ کے سوانح کے لیے مختص کیے، مگر اس میں بھی زمانی یا واقعاتی ترتیب کا لحاظ نہ تھا۔ یہانتکہ کچھ باہمت صاحبان ِ عمل و فن نے آنحضورﷺکی مکمل حیات ِ مبارکہ کے احاطے کی کوشش کی تو ''سیرت نگاری'' کو ایک فن کا درجہ مل گیا۔ محدثین اور سیرت نگاروں کے دائرہ کار ذرا مختلف تھے، سیرت نگاروں کی کوشش تھی کہ نبی اکرم ﷺکی حیاتِ مبارکہ کے حوالے سے جو کچھ بھی دستیاب ہے، اُسے محفوظ کرلیا جائے اور اس ضمن میں زیاددہ سے زیادہ معلومات کو یکجا کیا جائے، جبکہ محدثین کا ہدف یہ تھا کہ انسانی سطح پر کسی امر کو جانچنے کا جو بھی پیمانہ اور میعار ہوسکتا ہے، اُسے بروئے کار لاتے ہیں، احتیاط اور تحقیق کی آخری سطح اور معیار کو یقینی بنایا جائے اور جہاں معمولی تذبذب اور تشکیک آئے، اُس کو چھوڑدیا جائے۔ یہیں سے اسلامی تاریخ کی تدوین کی شروعات بھی ہوئی اور پھر از خود قرآن پاک مختلف اقوام اور سابقہ اُمتوں کے احوال خوب بیان کرتا ہے اور یہ کہ کوئی قوم یا قبیلہ کن خصائص کی بناء پر بلندی اور عروج حاصل کرتا اور کن معائب اور محرکات کے سبب زوال آشنا ہوتا ہے، قوم ِ عاد، ثمود اور بنی اسرائیل، قومِ لوط و شعیب اور آل فرعون کے تذکرے قرآن میں متعدد مقامات پر موجود ہیں اور پھر ان کے مسکن بھی عرب کے شمال مغرب گوشے میں تھے اور ان میں وہ اُمتیں تھیں، جن کی تباہ شدہ بستیاں اس مرکزی تجارتی شاہراہ پر واقع ہیں جو حجاز مقدس سے شام کی طرف جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن ِ مجید کی مکی سورتوں میں ان رسولوں اور ان کی تباہ حال اُمتوں کا ذِکر بہ تکرار و اعادہ موجود ہے، ابتدائی سیرت نگاروں میں عروہ بن زبیر کا نام معتبر ہے، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے اور آپ سے خصوصی اکتسابِ علم کے حامل تھے۔ امام شہاب الزہری کی '' کتاب المغازی '' اس شعبے میں نمایاں مقام کی حامل ہوئی۔تاہم ابتدائی عہد میں سیرت نگاری میں، جس شخصیت کوبہت پذیر ائی میسر آ ئی، وہ امام محمد بن اسحاق ہیں، جنہوں نے اس کو باقاعدہ فن کے طور پہ انفرادیت بخشی۔ ان کا ذخیرہ علم معتبر اور معلومات لائقِ اعتماد تھیں۔ اسی چشمہ ء صافی سے ابو محمد عبد الملک بن ہشام (م218ھ) نے اکتسابِ علم کیا اور اپنی شہرہء آفاق سیرت ابن ِ ہشام کو انہی مصادر، مراجع اور ماخذ پہ استوار کیا۔ ابن ہشام کی علمی ثقا ہت کے ساتھ شعری ذوق اور وقائع نگاری نے بھی اس کی تصنیف کو ممتاز کیا۔ ازاں بعد محمد بن عمرو الواقدی سیرت و مغازی کے شعبے میں نمایاں ہوئے۔ ان کی جزئیات نگاری پہ مستشرقین بھی معترض رہے، تاہم ان کے شاگر د محمد بن سعد ایک مستند مورخ، طبقات ابن سعد کی بارہ جلدوں کے مصنف بن کر سامنے آئے، جس کی ابتدائی دو جلدیں، انہوں نے صرف سیر تِ طیبہ کے لیے مختص کیں، سیر ت نگاری کے اس ابتدائی عہد کا اسلوبِ تحقیق ویسا ہی تھا، جیسا کہ کتبِ حدیث کا، یعنی ہر واقعہ کسی خاص سند سے مربوط اور منسلک ہوتا، جس میں اس کی صحت و ر وایت کا خاص خیال رکھا جاتا۔ بلا شبہ روایت حدیث کی جانچ پر کچھ کا معیار ازحد معتبر اور کڑا تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ سیرت نگاری میں شاید بعض مقامات پر محدثین والے سخت معیار اور مقام تک رسائی نہ ہوپائی ہو۔ تاہم سند کی صحت اور روایت کے ضعف، جیسے معیارات ضرور پیشِ نظر رہے۔ تیسر ی صدی ہجری اور مابعد سیرت نگاری کے شعبے میں حافظ ابو سعید عبد المالک نیشا پوری، علامہ ابن حزم، علامہ ابن عبد البر، علامہ ابن کثیر، عبد الرحمان السہیلی، قاضی عیاض، علامہ ابن قیم،ابن حجر القسطلا نی، علامہ شا می اور علامہ الحلبی جیسے نابغہ روز گار منصہ شہود میں آئے۔ دورِ حاضر میں بھی سیرت نگاری ارباب علم و فن کا محبوب و مرغوب موضوع رہا اور ان دو صدیوں میں متعدد کتب لکھی گئیں، جدید سیرت نگاری میں عالمِ اسلام کی سیاسی و سماجی ابتری کے اثرات بھی نمایاں تھے، اس لیے سیرت طیبہ کے ان پہلوؤں کو بھی شعوری اہمیت دی گئی، جن سے تمسک او رتعلق موجودہ پریشانی اور انحطاط سے نجات کا باعث بن سکتا ہے۔ برصغیر میں سیرت نگاری علماء او رمحققین کی خصوصی دلچسپی کا موضوع رہا اور یہ بابرکت سلسلہ اب تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا، تحقیقی مجلہ معارف اولیاء کی، اس خصوصی اشاعت میں ایسے ہی عقیدت کیش جذبوں اور ولولوں کی فراوانی کا اہتمام ہوا ہے۔
QOSHE - معارف ِ اولیاء کا '' سیرت نمبر'' - ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

معارف ِ اولیاء کا '' سیرت نمبر''

11 0
23.03.2024




رُبع صدی قبل جب داتاؒ دربار میں مرکز معارف ِ اولیاء کے نام سے ریسر چ سنٹر کی تشکیل کا اہتمام ہوا تو یہاں سے '' معارف ِ اولیائ'' کے نام ایک ریسرچ میگزین کی شروعات بھی ہوئیں، جس کا بنیادی مقصد صوفیاء کے احوال و افکار، اُن کی سیرت و کردار اور کارہائے نمایاں کی ترویج و تشہیر تھی، تاکہ سوسائٹی میں رَواداری، انسان دوستی، محبت آمیزی کا ابلاغ اور تشدّد، دہشت گردی اور انتہا پسندی، جیسے منفی جذبوں کا تدارک اور بیخ کنی ہو۔ متصوفانہ افکار کے فروغ پر مبنی یہ تحقیقی مجلہ اپنے اعلیٰ معیار طباعت و تحقیق کے سبب منفرد حیثیت کا حامل ہوا۔ دینی اور روحانی حلقوں کے ساتھ جدید دانشگاہوں اور اعلیٰ یونیورسٹیو ں کے ماہرین اور محققین کے تحقیقی اور تخلیقی مقالوں سے علم و ادب کے نئے دَروَا ہوئے، دریں اثناء اس پلیٹ فارم سے اُسوہء رسولﷺ کی تحقیق و ترویج کے خصوصی پراجیکٹس بھی تشکیل پائے اور ان کی طباعت و اشاعت پر متعدد قومی اعزازات فراواں ہوئے۔ اس مجلے کی 55 ویں اشاعت، جو بطور ِ خاص '' سیرت ِ رسول ِ اکرم ﷺ '' کے عنوان سے موسوم ہے، کا مسودہ مجلہ کے سب ایڈیٹر مشتاق احمد نے فراہم کرتے ہوئے، اس خصوصی اشاعت پر '' حرفِ محبت '' تحریر کرتے ہوئے، منصبی ذمہ داری کی بجا آوری کی طرف متوجہ کیا۔ یہ خوشگوار فریضہ میرے لیے ہمیشہ سعادت آفریں اور علم آ گیں ہوتا ہے اور میں اس امر کا بہت زیادہ قائل ہوں کہ لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے کے سَوتے کبھی خشک نہیں ہونے چاہیئں۔ بدقسمتی سے ہماری دفتری زندگی کا ناطہ تخلیق اور تحقیق سے منقطع ہوجانے کے سبب ادارے ویران اور منصب کھوکھلے ہوتے جار ہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی بھلائی اور راہنمائی کے لیے محض قرآنِ مجید یعنی کتاب ہدایت پر........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play