سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا ایک شعر اور دیکھیے کہ ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا ۔یہ آتاب و ماہتاب رومانٹک اشارے ہیں ان کا سیاست سے ہرگز تعلق نہیں۔ لیکن آج سیاست پر تھوڑی سی تو بات ہو گی کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی نسبت پنجاب کی وزارت اعلیٰ زیادہ متحرک ہے بس ایسے میں اپنا محبوب شاعر منیر نیازی یاد آ جاتا ہے: منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اس عمل کے خلاف ہیں کہ جو غریبوں میں آٹا تقسیم ہو رہا ہے میرا مطلب ہے نگہبان رمضان پیکیج جس پر درج ہے کہ آپ کا حق آپ کی دہلیز پر۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے کم آمدن والے 64لاکھ گھرانوں کے لئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 30ارب کے پیکیج کا تحفہ ،جو لوگ اس پر معترض ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غریبوں کو بھیک نہیں چاہیے انہیں روزگار دیں سچی بات تو یہ ہے کہ پچھلے دور میں جو لنگر خانے کھولے گئے اور پناہ گاہیں بنائی گئیں ان کا مقصد بھی کچھ اس سے زیادہ نہیں تھا۔ تب بھی تو کروڑ نوکری اور پچاس لاکھ مکانوں کا اعلان ہوا تھا۔ ہاں ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ آٹے کے تھیلے پر تصویر نواز شریف کی ہے اور یہ سوال ایک صحافی نے مریم نواز شریف سے کیا بھی جس پر پلٹ کر مریم نواز نے کہا کہ پنجاب میں حکومت کس کی ہے یعنی نواز شریف کی ۔ظاہر ہے باپ سے محبت انہیں ہے اور ان کی حکومت اسی کا ثمر ہے ۔شاید مریم نواز کی تصویر آٹے کے تھیلے پر اچھی بھی نہ لگتی ویسے یہ آئیڈیا بے نظیر پروگرام سے ملتا جلتا ہے۔ ن لیگ نے ویسا ہی عوامی رنگ اپنانے کی کوشش کی ۔شہباز شریف نے بھٹو کی نقل میں کئی مائیک گرا دیے تھے اور ہمیں ہماری یہ سوچ کر ہنسی نکل جاتی ہے کہ جنہیں انہوں نے سڑکوں پر گھسیٹنا تھا وہ ایوان صدر میں موجود ہیں اور وہ خود اپنے سگے بھائی کو ری پلیس کر چکے جو بھی ہے۔ نواز شریف ایک حد پر جا کر ردعمل کر سکتے تھے مگر شہباز شریف کو تو خدمت گزاری پر فخر ہے بلکہ وہ خود کو ان کے آنکھ کا تارہ سمجھتے ہیں۔ میں بہک کر کہیں اور نکل گیا۔ بات ہو رہی تھی رمضان کے نگہبان پیکیج کی ہم نے تو اللہ نگہبان ہی پڑھ رکھا تھا ایے ہی ایک شعر ستا رہا ہے کہ: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے اب ہم وہ بات کہنے جا رہے ہیں جس کے لئے ہم نے یہ تمہید باندھی کہ غریبوں کا اصل مسئلہ کچھ اور ہے ۔وہ ہیں یوٹیلیٹی بلز یعنی بجلی اور گیس کے بلز جن کو دیکھ کر بھی اچھا خاصہ شخص بلبلا اٹھتا ہے۔ خاص طور پر گیس کو تو آگ ہی دکھا دی گئی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے پورے کرتے کرتے کیا آپ پاکستانی عوام کو مار دیں گے اچھے خاصے لوگ بھی اپنے میٹر کٹوانے کا سوچ رہے ہیں اور گیس سلنڈر گھر لے آئے ہیں بجلی کا حل سولر سے نکالا گیا اور واپڈا ولے ایسے ٹیکسز لگا کر پھر بھی بل ہزاروں میں بھیجتے ہیں گیس کا متبادل مشکل اس لئے ہے کہ سلنڈر بھی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب بھی 5سالہ معاشی روڈ میپ پیش کر چکے ہیں کہتے ہیں کہ حکومتی اخراجات کم کریں گے یہ جملہ تقریباً ہر حکومتی کہتی چلی آ رہی ہے۔دوسرا ایک اور رواج چل نکلا ہے کہ تنخواہیں نہیں لیں گے بندہ پوچھے اس سطح پر تنخواہ تو زیرہ ہوتی ہے جو اونٹ کے منہ میں ہوتا ہے۔ ٓپ اوپر کی سطح پر جو مراعات لیتے ہیں اور پھر جو خورد برد ہوتا ہے کہ تنخواہ کے بغیر ہی ارب پتی بن جاتے ہیں ۔کم از کم شہباز شریف کو تو سوچنا چاہیے کہ ان کے سولہ ماہ نے ہمارا بیڑا غرق کیا اور ان کی یہ حکومت اسی اقدام کا انعام ہے یکسر ہماری بے بسی بے چارگی اور بے کسی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب آدمی کو زندہ رہنے کی ترکیب بتائیں مثلاً وہ مزدور جو سوشل میڈیا پر آ کر یہ بتا رہا ہے کہ وہ محنت مزدوری کرتا ہے اس کا ایک بچہ معذور ہے اور اس کا گیس بل 20ہزار ٓیا ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ہیں۔ اب مانگنے والے بھی ایک ہاتھ میں بجلی اور گیس بل تھامے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں تو کوئی ان کا بل ہی ادا کر دے۔ دوبارہ لکڑیوں اور بورے کی انگیٹھی والا زمانہ بھی تو ممکن نہیں کم از کم شہروں میں تو یہ چیزیں مفقود ہیں۔ اگر لوگ اپنی مشکل کا حل نکالیں گے تو وہ یقینا مثبت تو نہیں ہو سکتا آخر نوجوان بھی تو ہیں جنہیں زندہ رہنا ہے یہ معمولی بات نہیں کہ لمحہ فکریہ ہے رمضان پیکیج کے بعد دوسرے گیارہ ماہ بھی تو آنے ہیں کوئی مستقل لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ خیر لائحہ عمل ہی نہیں سچ مچ کا کام کیا جائے ۔یہ زرعی ملک ہے یہاں کے لوگوں کو اناج تو ملے مگر یہاں تو سارے پراپرٹی ڈیلر بن گئے اور زرعی زمینیں ختم کرتے جا رہے ہیں۔ یہ پراپرٹی ڈیلرز کون ہیں، سب جانتے ہیں اور تو اور وہ اب زمینیں بھی ہڑپ کرتے جا رہے ہیں، انقلاب اس لئے نہیں آیا کہ کوئی لیڈر نہیں، سب سیاستدان ہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: سعد ہم بھی تو ایسے چاہتے تھے جیسے اس نے ہمیں تباہ کیا
QOSHE - نگہبان رمضان پیکیج اور مسائل - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نگہبان رمضان پیکیج اور مسائل

7 0
17.03.2024




سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا ایک شعر اور دیکھیے کہ ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا ۔یہ آتاب و ماہتاب رومانٹک اشارے ہیں ان کا سیاست سے ہرگز تعلق نہیں۔ لیکن آج سیاست پر تھوڑی سی تو بات ہو گی کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی نسبت پنجاب کی وزارت اعلیٰ زیادہ متحرک ہے بس ایسے میں اپنا محبوب شاعر منیر نیازی یاد آ جاتا ہے: منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اس عمل کے خلاف ہیں کہ جو غریبوں میں آٹا تقسیم ہو رہا ہے میرا مطلب ہے نگہبان رمضان پیکیج جس پر درج ہے کہ آپ کا حق آپ کی دہلیز پر۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے کم آمدن والے 64لاکھ گھرانوں کے لئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 30ارب کے پیکیج کا تحفہ ،جو لوگ اس پر معترض ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غریبوں کو بھیک نہیں چاہیے انہیں روزگار دیں سچی بات تو یہ ہے کہ پچھلے دور میں جو لنگر خانے کھولے گئے اور پناہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play