گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردا تھا بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں جھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا اس ربط میں صرف ایک شعر اور۔ اگرچہ سعدرستے میں کئی دلکش جزیرے تھے مگر ہرحال میں مجھ کو سمندر پار جانا تھا ۔بس یہاں منزل کا تعین تھا ایسی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دین میں منزل ہی مقصود ہے اور یہ منزل کیا ہے؟ پہلے ایک مزے کی بات کرتے ہیں کہ اجتماع زندگی ہے اور انتشار موت ہے ۔ سادہ اور آسان لفظوں میں اجتماع زندگی اور حیات ہے اور انتشار و موت و جمود ہے۔ آپ غور کریں تو اجزا ملتے ہیں تو کوئی شے بنتی ہے مثال میں آپ دیکھیں کہ ایک ہڈی میں کیلشیم یا کئی دوسرے اجزا ملتے ہیں تو بات بنتی ہے اگر ان اشیاء کا اختلاف ہو تو ہڈی وجود نہیں پا سکتی کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اشیا کا اجتماع اصل میں تخلیق ہے برج نرائن چکمبت نے کہا تھا: زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا اب آتا ہوں میں اصل موضوع کی طرف کہ قرآن بھی کہتا ہے کہ آپس میں فرقہ فرقہ نہ ہو جانا اور وہی ہوا۔ ہماری بربادی کی اصل وجہ بھی یہی بنی اس وقت بھی یہی کچھ ہے کہ امت پارہ پارہ ہے۔ دین میں مقصود اور مطلوب نہیں بدلتا ہاں اس کے حصول کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے اس کے اسباب و علل مختلف ہو سکتے ہیں مگر منزل اور مقصد وہی رہے گا جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے طے کیا ہے اور ایک حوالہ مجھے یاد آ رہا ہے کہ شاہ ولی اللہ جو کہ اسیر مالٹا رہے اور انہوں نے اپنی اسیری کے دوران جس قدر بھی غور کیا تو ایک ہی نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کا زوال دو چیزوں کے باعث ہوا قرآن سے دوری اور تفرقہ بندی۔ وہی جس کا تذکرہ بعد میں بھی چلا کہ: فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے ہیں پنپنے کی یہی باتیں ہیں کہنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں باردیگر غور کرنا ہو گا کہ ہمیں اس تفرقہ نے تباہ کیا اور اسی لئے ہم میں وہ قومی حیات پیدا نہیں ہو رہی۔ اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے اختلافات اور کدورتیں بھلا کر یکجا اور اکٹھے ہونا ضروری ہے اقبال نے بھی تو کہا تھا کہ : فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں مثالیں تو ہمارے پاس بہت ہیں مگر اپنی انا اور اپنی اکڑ ہمیں اس طرح نہیںآنے دیتی یا پھر کچھ مفادات ہیں مثال تو ہمیں اس بوڑھے کی پڑھائی جاتی ہیں کہ جس نے اپنے بچوں کو پہلے لکڑیاں توڑنے کو کہا جو انہوں نے آسانی سے توڑ دیں پھر ان کو باندھ کر گھٹہ بنا کر توڑنے کو کہا تو وہ ناکام رہے۔ انسان سیکھنا چاہتے تو بے شمار اس کے مظاہر بکھڑے پڑے ہیں۔ خود پوری کائنات بھی اس یکجائی اور ربط کی مرہون منت ہے مگر ہماری انگلیاں صرف کھانے کے لئے اکٹھی ہوتی ہیں پتہ نہیں یہ ہمارے مزاج میں ہے کہ اگر ایک مسجد کی کمیٹی ہی بن جائے تو اس میں بھی سازش شروع ہو جاتی ہے بلکہ ہم تو تخریب میں فٹا فٹ شراکت دار بن جاتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے قائد اعظم نے بھی ہمیں اکٹھا کیا تو ہم ایک قوم بن گئے اور پھر اپنے مقصد کا حصول ممکن ہو گیا وہی کہ اتفاق میں برکت ہیں مگر یہ اعلیٰ باتیں صرف سلیبس بن کر کلیثے بن گئیں ایسے ہی خیال آیا کہ بادل میں ٹکڑیوں میں بٹ جائیں تو بارش کم ہی برساتے ہیں اکٹھے ہو کر موسلا دھار بارش برساتے ہیں اسی مقصد کے لئے تنظیم ضروری ہے لیڈر بھی وہی ہے جو سب کو آپس میں جوڑ کر رکھے وہ سب کو ایک دوسرے کے نزدیک کرتا ہے دور نہیں۔ ادھر تو مذہبی لوگوں کا یہ حال ہے کہ اپنے اپنے زہریلے باغ اگا رکھے ہیں کہ جہاں دوسرے کا دم گھٹتا ہے۔ کبھی ہم نے غور نہیں کیا کہ ہمارے دشمن نے ہم پر یہی پالیسی وضع کی کہ ان کو تقسیم کرو اور ان پر حکومت کرو اور ہم اس کی ترغیب میں آ کر باہم دست و گریباں رہے جو آپس میں متحد ہو کر جدوجہد کرتے ہیں وہی حکومت کرتے ہیں مگر یہاں تو برے مقاصد کے لئے سیاستدان کیسے اکٹھے ہوتے ہیں ایک دوسرے کو لمحہ کے لئے برداشت نہ کرنے والے بھی اکٹھے بیٹھتے ہیں اور بہم شیرو شکر ہو کر مفادات اٹھاتے ہیں۔ ایک بات جو پلے باندھنے والی ہے، وہی جو میں نے آغاز میں کہی تھی کہ ہمیں منزل مقصود پر نظر رکھنی ہے کہ ہمیں مطلوب کیا ہے مقصد تو اللہ کی رضا کا حصول ہے اس مقصد کے لئے طریقہ تو مختلف ہو سکتا ہے یا کم از کم اسباب کہہ لیں کہ مختلف ہیں۔ پہنچنا مگر ایک جگہ ہے اسی لئے تو انبیاء کے حوالے سے کہا گیا کہ ان میں فرق نہیں کرنا کہ پیغام سب ایک تھا کہ لوگوں کو اللہ کے راستے پر لانا طریقہ میں فرق تھا ہمیں بھی بنیادی طور پر مسلمان رہنا اور کہلوانا ہے بنیادی اور اساسی باتوں پر اتفاق کرتے ہوئے فروعی مسائل کو ہوا نہیں دینی۔
QOSHE - اجتماع زندگی ہے! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اجتماع زندگی ہے!

12 0
15.03.2024




گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردا تھا بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں میں جھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا اس ربط میں صرف ایک شعر اور۔ اگرچہ سعدرستے میں کئی دلکش جزیرے تھے مگر ہرحال میں مجھ کو سمندر پار جانا تھا ۔بس یہاں منزل کا تعین تھا ایسی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دین میں منزل ہی مقصود ہے اور یہ منزل کیا ہے؟ پہلے ایک مزے کی بات کرتے ہیں کہ اجتماع زندگی ہے اور انتشار موت ہے ۔ سادہ اور آسان لفظوں میں اجتماع زندگی اور حیات ہے اور انتشار و موت و جمود ہے۔ آپ غور کریں تو اجزا ملتے ہیں تو کوئی شے بنتی ہے مثال میں آپ دیکھیں کہ ایک ہڈی میں کیلشیم یا کئی دوسرے اجزا ملتے ہیں تو بات بنتی ہے اگر ان اشیاء کا اختلاف ہو تو ہڈی وجود نہیں پا سکتی کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اشیا کا اجتماع اصل میں تخلیق ہے برج نرائن چکمبت نے کہا تھا: زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا اب آتا ہوں میں اصل موضوع کی طرف کہ قرآن بھی کہتا ہے کہ آپس میں فرقہ فرقہ نہ ہو جانا اور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play