کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ رنجش کار زیاں، در بدری، تنہائی اور دنیا ہی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ اور پھر یہ کہ چشم نمناک لئے سینہ صد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ۔ ان اشعار لکھنے کا ایک مقصد ہے کہ یہ میرے موضوع کے ساتھ لگا کھاتے ہیں خاص طور پر ہمارے ادب سے وابستہ نوجوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ درپیش مسئلہ تھا کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے ہم نے حوالے سے ایک محاورہ بند شعر پڑھ دیا: اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے دوست کی محفل جمی ہوئی تھی اور وہ سب دانشور تھے کسی نے بات اٹھائی کہ ایک پنجابی شاعر تجمل کلیم نے کہا کہ منیر نیازی نے جب یہ کہا کہ وہ اردو شاعری اس لئے کرتے ہیں کہ پنجابی زبان میں وہ گنجائش نہیں تو تجمل کلیم نے اپنی ساری اردو شاعری نہر میں بہا دی اور پنجابی شاعری کا عہد کیا میں نے کہا کہ یقیناً تجمل کلیم پنجابی کے بہت ہی باکمال شاعر ہیں اور میں خود انہیں پسند کرتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ پنجابی شاعری اور خاص طور پر صوفی شعرا کی شاعری کو کسی بھی شاعر کے مقابلے پر رکھا جا سکتا ہے اس میں ایک خاص خوشبو ہے جو پنجاب کی مٹی سے وابستہ ہے اور پھر خیال اور اظہار ایسے یہ تو فیض صاحب نے کہہ دیا تھا کہ وہ میر و غالب جیسے ایک ادھ شعر کہہ لیں گے مگر صوفیا جیسا ایک مصرع بھی نہیں کہہ سکتے۔ بابا فرید سے لے کیا میاں محمد سب ایک بلیع شعری تاریخ ہے۔ میاں محمد کے ایک شعر کے بعد آگے چلتے ہیں: پڑھنے دا نہ مان کریں تو نہ آکھیں میں پڑھیا اوہ جب ستار کہاوے متاں روڑھ دیوے دودھ کڑھیا اب کڑھے ہوئے دودھ کی روایت سے باخبر ہیں تو لطف اٹھائیں گے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ آپ کے برتائو میں آنے والی زبان پر آپ کی کتنی دسترس ہے اور آپ کی کتنی گنجائشوں تک رسائی ہے وہی جو کہتے ہیں کہ خیال اپنی زبان ساتھ لے کر آتا ہے سب زبانیں ادب کی ہیں ادب کی کوئی خاص زبان نہیں۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ آپ نے کس زبان میں زندگی کی ہے اور کس زبان میں لوگوں نے عرق ریزی کی ہے۔ سردست اردو کی بات کریں تو جیسے تیسے یہ پنجاب میں رائج ہوئی تو شعرا اور ادبا کے استعمال میں آئی ہر زبان کا ایک مزاج اور کیمسٹری ہوتی ہے بلکہ فزکس بھی کہ جیسے آرگیننگ قسم کی چیز وجود میں آئی ہے مثلاً اردو میں اضافت کا استعمال اور ترکیب نے تہہ داری پیدا کی اس سے شعر میں گھمبیرتا پیدا ہوئی اس کی بہترین مثال غالب ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں فارسی کا تڑ کا ہے مثلاً بیدل سے متاثرہ شعر دیکھ لیں: بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا گویا اضافت کا استعمال شاعری کو چار چاند لگاتا ہے ہجو جو کہ عربی سے فارسی اور پھر اردو میں آئیں دوسری طرف آپ رومی اور سعدی کو دیکھتے ہیں تو وہ فارسی سے اوپر اٹھے تو عربی کے ساتھ معانقہ کیا۔ یوں ان کے ہاں علمیت کی نشانی وہ زبان سمجھی گئی جو معرب ہو یعنی عربی کا ٹچ اس میں ہو اصل میں یہ زبانیں ایک ہی طرح روح رکھتی ہیں آپ پنجابی کی ہیر اور سیف الملوک بھی دیکھیں تو ان میں عنوانات فارسی میں ہیں پہلے شعرا کے تذکرے بھی تو فارسی میں اس لئے تو فارسی سے نکلی ہوئی بلکہ لشکری زبان اردو مسلمانوں کی زبان کہی جانے لگی اس میں صاف اردو میں داغ کی مثال ملتی ہے اور ہمارے عہد میں شہزاد احمد کی: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے اصل میں زیادہ زبانوں سے واقفیت بہت اچھی چیز ہے ایک تو کینوس بڑھ جاتا ہے اور پھر دوسرے اثرات بھی آ جاتے ہیں آپ میر کے اچھے شعروں کی مثال میں دیکھیں: موسم آیا تو نخل دار میں میر سر منصور ہی کا بار آیا ایک اور بات جو میں کہتے کہتے رہ گیا کہ اصل بات اعجاز کی ہے جس زبان میں جتنی زیادہ اکانومی ہو گی یعنی کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کرنے کی گنجائش اس حوالے سے آپ عربی دیکھیں تو بعض جگہ صرف ایک لفظ یا ایک حرف بھی اتنا کام کر جاتاہے جو اردو میں دو تین الفاظ کے بغیر نہیں ہو سکتا اب دیکھئے کہ عربی میں تو کا کے کی بھی نہیں اس سے کسی زبان کو کمتر ثابت کرنا نہیں۔ صوفیا نے بے مثل شاعری کر کے دکھائی وہ اپنے وسیب کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور وہ اس میں بہت گھمبیر تھے۔ آپ بہترین مثال اقبال کی لیں کہ وہ کس طرح اردو اور فارسی میں رواں دواں ہیں ان کی انگریزی بھی بہت کمال کی ہے مگر شاعری کے لئے انہیں فارسی اور اردو ہی بھائی۔ آپ فیض اور فراز کی مثالیں دیکھیں تو وہ بھی فارسی کی خوبصورتیاں اپنے کلام میں لائے منیر نیازی کے ہاں ساتھ ایک منفرد اور جدگانہ فضا بھی ہے چلیے آخر میں ایک شعر: بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے
QOSHE - زباں پر ایک ادبی کالم - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زباں پر ایک ادبی کالم

12 0
09.03.2024




کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ رنجش کار زیاں، در بدری، تنہائی اور دنیا ہی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ اور پھر یہ کہ چشم نمناک لئے سینہ صد چاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ۔ ان اشعار لکھنے کا ایک مقصد ہے کہ یہ میرے موضوع کے ساتھ لگا کھاتے ہیں خاص طور پر ہمارے ادب سے وابستہ نوجوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ درپیش مسئلہ تھا کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے ہم نے حوالے سے ایک محاورہ بند شعر پڑھ دیا: اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے دوست کی محفل جمی ہوئی تھی اور وہ سب دانشور تھے کسی نے بات اٹھائی کہ ایک پنجابی شاعر تجمل کلیم نے کہا کہ منیر نیازی نے جب یہ کہا کہ وہ اردو شاعری اس لئے کرتے ہیں کہ پنجابی زبان میں وہ گنجائش نہیں تو تجمل کلیم نے اپنی ساری اردو شاعری نہر میں بہا دی اور پنجابی شاعری کا عہد کیا میں نے کہا کہ یقیناً تجمل کلیم پنجابی کے بہت ہی باکمال شاعر ہیں اور میں خود انہیں پسند کرتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ پنجابی شاعری اور خاص طور پر صوفی شعرا کی شاعری کو کسی بھی شاعر کے مقابلے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play