دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ ساتھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی بجا رہے ہو ہوائوں سے تم چراغ مگر ہوا کے بعد کہاں اس کی زندگانی بھی ایک اور شعر دیکھیئے بہت ذھین تھا ظالم کہ اٹھ کے چل بھی دیا۔ جہاں زبان بنی اپنی بے زبانی بھی۔ اور پھر یہ کہ ہمارے خواب سے ٹکرا گئے ہیں خواب اس کے ۔یہیں پہ ختم کرو سعد یہ کہانی بھی۔ یعنی اب ہمارے کہنے اور کرنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ اخلاقیات کا تذکرہ تو شاید دقیانوسی بات ہو گی۔ مال مسروقہ پہ وہ کس قدر مطمئن ہو گئے۔ ظاہر ہے اب انہیں پتی دینی بھی اور پتی بچانی بھی ہے۔ اس مسئلہ پر خامہ فرسائی بھی بے سود ہے کہ حمیت اور آبرو کا وہاں سے گزر نہیں۔ میں تو الفاظ پر غور کر رہا تھا کہ قارئین کے ساتھ معانی اور مراد میں سانجھ ڈالی جائے۔ میں نے اسٹیبلشمنٹ کا سوچا تو یہی سمجھ میں آیا کہ اسٹیبلشمنٹ اسے کہتے ہیں جو اس کے دل میں آئے یا وہ جو چیز چاہے اسٹیبلش کر دے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے پھر بھی وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کہلائے گی کہ طاقت کی خاموشی بھی اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے اس کے بعد اشرافیہ کا سوچا تو وہ یوں محسوس ہو گی کہ اشرفیہ بھی وہی کہلاتی ہے جو کسی بھی شے کو شرف قبولیت بخشے یہ شرف انسانی سے مختلف چیز ہے بلکہ شاید متضاد ہے۔ویسے سیاست میں تو الفاظ کے اپنے معانی ہوتے ہیں بعض اوقات جیسے ترقی اور ریلیف دیکھا جائے تو یہ معکوس بیانیہ رکھتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو سچ بنا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ اب ذرا اس ابتذال سے بلند ہو کر کچھ باتیں کرتے ہیں کہ اس سے ہماری روح کو بالیدگی ملے گی۔ بات انجام سے آغاز کر لیتے ہیں کہ مولانا حمید حسین نے بتایا کہ انسان کی یافتوں کا حاصل وہ مقام و مرتبہ ہے کہ جہاں کوئی برگزیدہ شخص اس قابل ہو سکے کہ خدا کے سامنے پیش ہو سکے یعنی ملاقات کا اعزاز اسے مل جائے۔ یعنی ہر چیز کا ایک ہوم ورک اور تیاری ہوتی ہے۔ صائب فرماتے ہیں کہ وہ کعبہ کے طواف کو گئے تو اجازت نہ ملی۔ آواز آئی کہ باہر کون سا ایسا عمل کر کے آئے ہو کہ تمہیں پذیرائی مل سکے۔ یہ باریابی اتنی آسانی سے نہیں ملتی۔ بس یہی بات انہوں نے کی تھی کہ بندگی ایک عمل ہے جو اپنا سراپا بھی رکھتا ہے۔ ایک مثال سے اسے دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص عادل ہے تو بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ کوئی شخص عدل کرنے والا ہے اور اگر یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں عدل ہے تو یہ مبالغہ کا صیغہ بن جاتا ہے کہ فلاں سراپا عدل ہے۔ سمجھانے کے لئے گرائمر کی بات کر رہا ہوں۔ اسی طرح بندگی کرنے والا بندہ یہی اعزاز اپنے پاس رکھتا ہے اللہ کے سامنے عجز و نیاز کا سراپا ہے۔ اس کی ہر شے غلامی ہی سے عبادت ہے۔اس کی آنکھ کان اور ہاتھ گویا کہ خود سپردگی کے عمل ہیں جیسے آقا چاہتا ہے وہ حکم بجا لاتے ہیں یہاں خوبصورت باتیں نکلتی گئیں مثلاً۔ کہا جاتا ہے کہ علم عمل کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ علم عمل سے گزرتا ہے اور پھر یہ حال بن جاتا ہے یعنی وہ کیفیت جس میں بندہ یکسو رہتا ہے۔ اس کا خیال تک بھی بھٹکتا نہیں۔ اس کے بعد کہ جب حال بن جائے تو پھر اس میں مسلسل رہنا بندے کو مقام عطا کرتا ہے یعنی حال علم کی مسلسل عملی صورت ہے اور پھر حال کی ریاضت بندے کو مقام عطا کرتی ہے۔ علم عمل حال اور پھر مقام اس مقام کے بعد پھر ملاقات رہ جاتی ہے جو کہ معراج ہے اصل میں مبارک وہ بارش ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے یہی کام تو اس پیغام اسلام کا ہے کہ وہ بارش جو موت میں زندگی کے آثار لے آئے قرآن مجید سے پہلے وہ ڈارک ایج دور کا معاملہ تھا۔ آپ ﷺ کو مصلحتاً امی رکھا گیا کہ آپ کی بات وحی کے زیر اثر ہوتی ہے۔آپؐ اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے بلکہ آپؐ پر وحی آتی تھی۔ بات کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ذھن نشین کر لینا چاہیے کہ بہرحال ایک ملاقات ہے جو اپنے مالک سے ہے اور اس ملاقات کے قابل ہرکس و ناکس تو نہیں اس کے لئے بندے کو اپنی بندگی میں کامل و مکمل ہونے کا کہا گیا ہے۔ ایک سفر ہے زندگی کا جو اپنے اختیار میں ہے تو بے اختیاری کے ساتھ۔ بات تو سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ دیکھوں کہ تم میں سے کون احسن کام کرتا ہے گویا ایک امتحان ہے اس کا پیپر بھی آئوٹ ہے۔ ایک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ قرآن جو کہ ہدایت ہے تو اس میں ایک خوبصورتی ہے کہ جو فقرہ اسم سے شروع ہو یعنی اسمیہ ہو تو اس میں دوام اور ہمیشگی ہوتی ہے بلکہ مغلیہ جملہ حادث ہوتا ہے۔ یعنی عارضی بات۔ قرآن مجید باقی کتب کے حوالے سے ہمیشگی رکھتا ہے کہ اللہ نے اس کے حوالے سے ذمہ داری اٹھائی ہے اور یہ الفاظ و نقوش کا بھی محتاج نہیں لاکھوں دلوں میں یہ موجود ہے۔ یہ قیامت تک کے لئے ہدایت ہے اس کا نقطہ تک تبدیل نہیں ہو گا اور یہ بین ہے اور حضور ﷺ کی صورت میں اپنی عملی حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ جبریل امین آپؐ کے پاس خدا کی کتاب لائے کہ جس کی ایک آیت جیسی کوئی آیت لانے سے عرب اور فصیح لوگ بھی عاجز رہے۔ بس یہی کچھ الفاظ کے پھول اور معنی کی خوشبو آپ کے ساتھ رہے گی۔
QOSHE - کچھ الفاظ کے پھول اور معنی کی خوشبو! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کچھ الفاظ کے پھول اور معنی کی خوشبو!

9 0
04.03.2024




دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ ساتھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی بجا رہے ہو ہوائوں سے تم چراغ مگر ہوا کے بعد کہاں اس کی زندگانی بھی ایک اور شعر دیکھیئے بہت ذھین تھا ظالم کہ اٹھ کے چل بھی دیا۔ جہاں زبان بنی اپنی بے زبانی بھی۔ اور پھر یہ کہ ہمارے خواب سے ٹکرا گئے ہیں خواب اس کے ۔یہیں پہ ختم کرو سعد یہ کہانی بھی۔ یعنی اب ہمارے کہنے اور کرنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔ اخلاقیات کا تذکرہ تو شاید دقیانوسی بات ہو گی۔ مال مسروقہ پہ وہ کس قدر مطمئن ہو گئے۔ ظاہر ہے اب انہیں پتی دینی بھی اور پتی بچانی بھی ہے۔ اس مسئلہ پر خامہ فرسائی بھی بے سود ہے کہ حمیت اور آبرو کا وہاں سے گزر نہیں۔ میں تو الفاظ پر غور کر رہا تھا کہ قارئین کے ساتھ معانی اور مراد میں سانجھ ڈالی جائے۔ میں نے اسٹیبلشمنٹ کا سوچا تو یہی سمجھ میں آیا کہ اسٹیبلشمنٹ اسے کہتے ہیں جو اس کے دل میں آئے یا وہ جو چیز چاہے اسٹیبلش کر دے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے پھر بھی وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کہلائے گی کہ طاقت کی خاموشی بھی اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے اس کے بعد اشرافیہ کا سوچا تو وہ یوں محسوس ہو گی کہ اشرفیہ بھی وہی کہلاتی ہے جو کسی بھی شے کو شرف قبولیت بخشے یہ شرف........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play