باعث رنج ومحن غیض و غضب پوچھتے ہیں ہم سے کیا بات ہوئی سوئے ادب پوچھتے ہیں کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں ایک اور شعر کا احتمال پیدا ہوا کہ ہمارے شہباز شریف پوچھتے ہیں کہ آخر لوگ ان سے گریزاں کیوں ہیں؟’’ ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر، ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر کاوشیں کرنا ہوں گی باقی تو سب ٹھیک ہے مگر سیاسی استحکام تو ضرور آ جائے گا اور اسی سے ان کا معاشی استحکام وابستہ ہے اور یہی بیرونی قرضوںکا درست استعمال ہے باقی رہی بات کہ جو زخمی عدو ہیں وہ تو آسانی کے ساتھ باتوں میں آنے والے نہیں۔ ایسے ہی کسی دور کی مناسبت سے منیر نیازی کی بات یاد آ گئی کہ ایک مرتبہ انہوں نے ریاض مجید سے کہا کہ ان کے گھر سے ایک رنگین سانپ نکلا تو انہوں نے بیوی سے کہا اسے مت مارنا یہ خوبصورت لگتا ہے ریاض مجید بولے کہ انہیں بھابھی نے کہا ایک ہی بہت ہے اس گھر میں۔ منیر نیازی نے پلٹ کر ریاض مجید سے کہا کہ تم چاقو کے ساتھ گدگدیاں نہ نکالو کسی زبردست بات ہے کہ آپ کسی اوچھے مذاق سے کسی کو آسودہ یا خوش نہیں کر سکتے وہی جو انشا نے کہا تھا: نہ چھیڑ اے باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں جیتنے والے اپنی جیت کا یقین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دو ہزار اٹھارہ کی دھاندلی کی بات کر کے اپنے آپ کو دلاسہ بھی دیتے ہیں یعنی ایک برائی کا جواز دوسری برائے سے دے کر بڑی منطقی قسم کی دلیل دیتے ہیں خواجہ سعد رفیق اور جاوید لطیف کے بیانات بہت ملتے جلتے ہیں کہ اگر انہوں نے 2018ء کو برداشت کر لیا تھا تو ان کے مخالفین 2024ء کو برداشت کریں ویسے تو صفائیاں دینے کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رات گئی بات گئی کوئی جتنا مرضی شور مچا لے گا کچھ نہیں بنے گا وہی جو اسد ملتانی نے کہا تھا: رند بخشے گئے قیامت کو شیخ کہتا رہا حساب حساب بہرحال جب اوپر بات ہو جائے تو وہ آخر نیچے بھی آتی ہے ڈیل میں کئی قسم کی ڈھیل بھی ہوتی ہے بہت کچھ ہوتا ہے صرف دلیل نہیں ہوتی آخر مولانا فضل الرحمن کو کھیل سے باہر رکھنا کسی ایک آدمی کا تو کام ہے ہی نہیں یقیناً ان کو زبردست مایوسی ہوئی کہ مکھن سے بال نکالنے کا محاورہ بھی پیچھے رہ گیا غالب یاد آ گیا ہے کہ: میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں مگر ادھر تو بزم میں آنے کی اجازت ہی نہیں ملی شاید اتحادی خود بھی ڈرتے ہیں کہ مولانا کے ہوتے کسی کی دال نہیں گلتی اور پھر یہ کہ حصہ بقدر حبثہ کا بھی معاملہ ہے بات تو اصل میں یہ کہ کھیر کس نے پکائی اور آ کر کھا گیا کون اور اب کون بیٹھ کر ڈھول بجائے ڈر اور خوف سے ایک شرارتی سا شعر بھی کسی کا ذھن میں آ رہا ہے: شیخ مسجد میں سر جھکاتا ہے خور جنت میں کانپ جاتی ہے بات کدھر سے کدھر نکل گئی ابھی تو بات چلی ہے ابھی تو مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کا معاملہ ہے وہ بن بھی ہیں اور ردعمل بھی شروع ہو چکا ہے وہی پرانی بات عورت کی سربراہی کا معاملہ کہ بے نظیر کے معاملہ میں کس نے یہ جواز پیش کر کے تحریک چلانے کی کوشش کی تھی بس یہ دنیا مکافات عمل ہے جو بیجو گے وہ کاٹو گے مگر مریم نواز کے حق میں کئی باریش ہیں۔ بلیغ الرحمن نے بھی فرما دیا ہے کہ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ میں پنجاب تیزی سے ترقی کرے گا۔ محترمہ کے چچا کی تیزیاں تو ہم 16ماہ والی حکومت بھی دیکھ چکے ہیں دیکھیے مولانا فضل الرحمن کا کیا موقف سامنے آتا ہے۔ ویسے آج کے اخبار میں اور خبریں بھی ہیں جو دلچسپ ہیں حامد رضا فرماتے ہیں کہ ملک کو ڈاکوئوں اور چوروں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اب اس پر کوئی کیا جواب رقم کرے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے اور کیوں کر ہو، ویسے بھی ان ڈاکوئوں اور چوروں کو برداشت تو عوام کرتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ انہیں برداشت کرنا لوگوں کی ذم داری ہے اور فرض عین ہے۔ ایک دلچسپ خبر یہ کہ حارث رئوف پی ایس ایل سے باہر ہو گئے ہیں میں سنتا رہا کہ لاہور قلندر تو خود پی ایس ایل سے تقریباً باہر ہو چکی ہے کہ اس کو مسلسل پانچویں شکست ہوئی ہے اور اب تو کپتان بدل کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہم تو چاہتے تھے کہ قلندر کے ساتھ سکندر کا قافیہ آئے مگر لاہوریوں کے تو دل ہی ٹوٹ گئے۔ کراچی سے تو وہ جیتا ہوا میچ ہار گئے اس میں شعیب ملک اور پولارڈ کی شراکت نے لاہور قلندر کو بے بس کر دیا۔ چلئے آخر میں شایدہ لطیف کے دو تازہ اشعار کہ آپ بھی لطف اٹھائیں: قرار میں بھی بے قرار کیسے ہو گئی ذرا سی بات پر میں اشکبار کیسے ہو گئی یہ پھول خار کیسے ہو گئے تری نگاہ میں مری خزاں ترے لیے بہار کیسے ہو گئی
QOSHE - مری خزاں ترے لئے بہار کیسے ہو گئی! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مری خزاں ترے لئے بہار کیسے ہو گئی!

11 0
28.02.2024




باعث رنج ومحن غیض و غضب پوچھتے ہیں ہم سے کیا بات ہوئی سوئے ادب پوچھتے ہیں کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں ایک اور شعر کا احتمال پیدا ہوا کہ ہمارے شہباز شریف پوچھتے ہیں کہ آخر لوگ ان سے گریزاں کیوں ہیں؟’’ ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر، ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر کاوشیں کرنا ہوں گی باقی تو سب ٹھیک ہے مگر سیاسی استحکام تو ضرور آ جائے گا اور اسی سے ان کا معاشی استحکام وابستہ ہے اور یہی بیرونی قرضوںکا درست استعمال ہے باقی رہی بات کہ جو زخمی عدو ہیں وہ تو آسانی کے ساتھ باتوں میں آنے والے نہیں۔ ایسے ہی کسی دور کی مناسبت سے منیر نیازی کی بات یاد آ گئی کہ ایک مرتبہ انہوں نے ریاض مجید سے کہا کہ ان کے گھر سے ایک رنگین سانپ نکلا تو انہوں نے بیوی سے کہا اسے مت مارنا یہ خوبصورت لگتا ہے ریاض مجید بولے کہ انہیں بھابھی نے کہا ایک ہی بہت ہے اس گھر میں۔ منیر نیازی نے پلٹ کر ریاض مجید سے کہا کہ تم چاقو کے ساتھ گدگدیاں نہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play