کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ اس تسلسل میں ایک شعر اور ’’کہ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں۔کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ‘‘ اصل میں آج میرا دل چاہا کہ ادبی کالم میں پرائی زمینوں کی بات کروں کہ کسی کی زمین شاعر کو پسند آ گئی تو اپنی فصل اگا دی بعض اوقات بہت اچھے اچھے شعر نکل آتے ہیں مندرجہ بالا اشعار کے پس منظر میں وہ شعر ہے: رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ اسی میں ہمارے دوست عدیم ہاشمی نے بھی خوبصورت غزل کہی: ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہے کس نے دیوار اٹھا دی مری دیوار کے ساتھ ہمارے فراز صاحب نے بھی جوہر دکھائے: ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ ایک دن عدیم ہاشمی مجھے ملے تو اپنی وہ کتاب تحفہ میں دی جو ساری انہی غزلوں پر مشتمل تھی جو دوسروں کی زمینوں میں انہوں نے غزلیں کہہ رکھی تھیں۔ کیا کیا شعر انہوں نے نکالے مگر ایک اقبال ایسے شاعر ہیں جن کی زمین میں اچھی غزل کہی غالب کا شعر تھا: پوچھا جو میں نے یار سے اڑتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں مرتضیٰ برلاس صاحب نے کہا تھا : میں نے کہا کہ عشق بن کیسے کٹے گی زندگی جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں یعنی انہوں نے زندگی کا خاتمہ ہی کر دیا ایک مشاعرے میں جہاں ہم بھی موجود تھے مرتضیٰ برلاس نے کہا کہ ہم نے فراز کو چیلنج دیا کہ غالب کی اس زمین میں غزل کہو تو مانیں۔۔ فراز کی بات تو ایک طرف رہ گئی ہم نے موقع جانا اور اس میں دوغزلہ کہہ دی جو بیاض نے برلاس صاحب کی غزل کے مقابل میں شائع کی: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں سوچتا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں بہرحال فراز صاحب نے ایک کمال کی غزل ایک اپنی ہی اچھوتی زمین میں نکال دکھائی ناصح تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے یہ کوئی نئی بات نہیں کلاسک اساتذہ نے بھی ایک ہی زمین پر کیا کیا طبع آزمائی کی۔ انیس نے تو کہا ’ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو‘ اس عمل سے شاعر کے جوہر کھلتے ہیں اور کہنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔خالد احمد بھی اپنے دوستوں کو اس کام میں لگا کر ان کا دم دیکھتے تھے عفوان شباب میں ہم بھی پاکستان ٹیلی ویژن سے نکلے اور سامنے بیاض کے دفتر خالد احمد کے پاس جا بیٹھے وہ بڑے موڈ میں تھے کہنے لگے بھئی دیکھو آپ سب نے بیاض کے لئے حسرت موہانی کی زمین میں غزلیں کہنی ہیں مصرع تھا دہکا ہوا ہے آتش کل سے چمن تمام۔ ہم نے بھی اس دعوت کو چیلنج جانا اور پوری نو غزلیں کہہ ماریں۔ چھ بیاض کی زینت بنیں پہلے تو گرہ لگائی۔ شبنم نے کام کر دیا جلتی پہ تیل کا دہکا ہوا ہے آتش گل ہے چمن تمام کس کس ادا پہ اس کی میں واروں نہ اپنا دل اس پر ختم خامشی اس پر سخن تمام کام یہ اتنا آسان نہیں کہ: اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں لی جئے ہم نے تو ادبی کالم لکھ دیا ہاں یاد آیا کہ اس مقابلہ بازی میں بڑے اچھے اچھے شاعر شعر ماضی کی یادگار ہیں مثلاً عظیم اورنگ آبادی کا شعر: شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مشکل برق وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے مگ یہ شعر مشہور کچھ اور ہی ہو گیا اور زیادہ عام فہم ہے گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
QOSHE - دوسروں کی زمین میں سخن وری! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دوسروں کی زمین میں سخن وری!

9 0
31.01.2024




کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دست ہنر آثار کے ساتھ اے مرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ اس تسلسل میں ایک شعر اور ’’کہ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں۔کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ‘‘ اصل میں آج میرا دل چاہا کہ ادبی کالم میں پرائی زمینوں کی بات کروں کہ کسی کی زمین شاعر کو پسند آ گئی تو اپنی فصل اگا دی بعض اوقات بہت اچھے اچھے شعر نکل آتے ہیں مندرجہ بالا اشعار کے پس منظر میں وہ شعر ہے: رات محفل میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ اسی میں ہمارے دوست عدیم ہاشمی نے بھی خوبصورت غزل کہی: ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہے کس نے دیوار اٹھا دی مری دیوار کے ساتھ ہمارے فراز صاحب نے بھی جوہر دکھائے: ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play