موج میں آ کر جب بہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں تنہا تنہا کیوں رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں سبز رُتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں اور پھر’’آنکھیں بن کر دیکھ رہے ہو تم بھی قیدی لوگوں کو۔ روشن دانوں سے کہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں‘‘ پہلی بات تو یہ کہ شعر میں قیدی سے مراد کوئی سیاسی قیدی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ کالم خالصتاً ادبی ہے۔ اصل میں محترم اقتدار جاوید کالم نثری نظم اور یوسف خالد نظر سے گزرا تو ہم پر واجب ہو گیا کہ کچھ خامہ فرسائی کروں۔ویسے بھی ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ ’’صلائے عام سے یاران نکتہ داں کے لیے، مقصد ان کا یہی ہے، اب کیا کریں کہ مقطع میں آپڑی سخن گسترانہ بات۔ نثری شاعری کا فیصلہ کافی پرانا ہے۔ مسئلہ تو ہم جیسے شاعروں کا ہے جو خواب بھی بے وزن نہیں دیکھتے۔ اگر آپ نظم کہہ سکتے ہیں تو کیوں شاعر کہلوانے کا شوق چرایا ہے۔ سب سے خوبصورت بات تو فیض احمد فیض نے کی تھی کہ بھائی جان نظم کے معنی یکجا کرنا ہوتا ہے۔ اور نثر کا مطلب بکھیرنا، تو دو متضاد عمل ایک ہی وقت میں کیسے سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آخر کیا مصیبت پڑی ہے اس شترگربہ کی۔ حفیظ جالندھری اپنے مخصوص شوخ انداز میں کہا تھا کہ قبلہ آپ کسی بھی ڈائجسٹ کے ورق کے ایک کونے سے ترچھا دوسرے کونے تک پھاڑ لیں تو یہ دو نثری نظمیں بن جائیں گی۔ یہ بات بالکل مختلف ہے کہ اختر حسین جعفری نے توجہ دلائی کہ کسی نثری نظم والے کو نوبل انعام نہیں ملا۔ چلیے آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ میں اور معروف شاعر منظور احمد جنہوں نے مشہور نغمہ لکھا تھا، روشن میری آنکھوں میں وفا کے جو دیئے ،سب تیرے لیے ہیں‘‘ شہزاد احمد کی طرف گئے، چائے وائے پی کر شہزاد احمد نے اپنا مسودہ سامنے رکھ دیا کہ ’’شاہ! دیکھ یہ نثری نظمیں ترتیب دی ہیں۔ اب مجھے نام بھی یاد نہیں۔ میں نے کچھ نظمیں پڑھیں اور بے ساختہ کہا ’’شہزاد صاحب آپ کی نثری نظمیں پڑھ کر آپ کی پابند شاعری اور بھی اچھی لگنے لگی۔ ظاہر ہے میری بات انہیں پسند نہ آئی۔ اصل میں وہ ایڈونچر کرنا چاہتے تھے کہ ایک چلن اس وقت کا تھا۔ اس سے پیشتر وہ پروین شاکر کا ذکر بھی میرے سامنے کر چکے تھے کہ اس نے نثر نظمیں کہی ہیں۔ مگر کیا کریں بات دل کو لگی نہیں۔ شہزاد احمد کے گھر سے واپسی پر ہم نہر کنارے آ گئے۔ تب میرے پاس موٹر سائیکل ہوتی تھی میں نے پیچھے بیٹھے منظور احمد سے کہا، سر ایک نظم ہوئی ہے۔ وہ فرمانے لگے کیا۔ میں نے کہا نہر کنارے مینڈک کو دیکھنا ایک اڑتی تتلی اس پر آن بیٹھی مینڈک نے اچھلنا شروع کر دیا اس سے پہلے اس پر اتنی خوبصورت شے نہیں بیٹھی تھی پانی کہتا رہا…… منظور احمد صاحب نے کہا ’’واہ واہ شاہ صاحب‘‘ میں نے ہنس کر کہا سر میں نے بغیر سوچ سمجھے یہ بک بک کی ہے۔ احمد صاحب بولے ’’آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ اس نثری نظم میں کیا کہہ گئے ہیں۔ یہ تو مینڈک کی تحلیل نفسی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فن پارے نہیں ہیں۔ مثلاً نسرین انجم بھٹی کی شاعری کے ہم دیوانے تھے۔ مگر آپ ان فن پاروں کو ’’نثر پارے‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ مختار مسعود کی نثر دیکھیں یا رحیم گل کا ناول جنت کی تلاش۔ ایسے اقتباسات جا بجا ملیں گے۔ مگر ان کو نثری شاعری قرار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر دیکھیے کہ شاعری میں ایک رکھ رکھائو اور برتائو سے اس میں ترنم ہے موسیقیت، وہ گائی جا سکتی ہے۔ اب کوئی کہے کہ گائی تو خیر جا سکتی ہیں۔ یا پھر شاعری کو اکہتر بہتر تہتر بندے۔ بہرحال ایک خیال کو آہنگ کی ضرورت ہے اور ڈھنگ کی بھی۔ اور اس کا شعور عرض کہلاتے ہیں وگرنہ ’’من نہ دانم فاعلاتن فاعلات‘‘ یہ مسئلہ آمد اور آوردوالا ہے۔ یعنی اپنے خیال کو سنوارنا ایک شعر یاد آ گیا۔ بحرِ رجز میں ہوں نہ میں بحرِ رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں یہ معاملہ صرف اردو ہی میں نہیں، انگریزی میں بھی رائم ہی کا کمال ہے۔ وہاں بھی کئی طرح کی شاعری ہے مگر جو بات کپلٹ اور پابند نظم جسے ساینٹ اور ایپک میں ہے کہیں اور نہیں۔ بڑی بڑی نظمیں نظم مصریٰ ہیں، اردو میں پابند نظم پر کیا اعتراض کہ اس میں ایک نظم و ضبط ہے بلکہ آزاد نظم میں بھی بنیادی یونٹ یعنی اکائی موجود ہے۔ آپ انگریزی میںشیکپئر کا حوالہ لے لیں یا پھر ورڈر کا، کیٹس تو ویسے ایک آہنگ اور ترنگ ساشاعر ہے۔ وہ پرندوں کے نغموں سے مسمور نظر آتا ہے۔ ویسے اچھی نثر کوئی بری شے تو نہیں یہ بری شاعری سے کہیں اچھی ہے تا ہم نظم نظم اور نثر نثر۔ ایک عربی شاعر نے کہا تھا کہ نظم ترکش سے تیر پھینکنا ہے جبکہ نثر ہاتھ سے تیر پھینکنے جیسا ہے۔ پابند شعر تو حسن ہے ’’کون کہتا ہے حسن کچھ بھی نیہں، اس نے تو آگ سی لگا دی ہے‘‘۔ نثری شاعر کو عصری شاعری کہنے والے زیادہ نہیں۔ کوئی نثر شاعرانہ یہ تو خط غبار جیسی ہوتی۔ میر اس رمز سے آشنا ہے پڑھتے پھریں گے میرا انہی ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
QOSHE - نثری شاعر اور جواب آں غزل - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نثری شاعر اور جواب آں غزل

7 0
18.01.2024




موج میں آ کر جب بہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں تنہا تنہا کیوں رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں سبز رُتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں اور پھر’’آنکھیں بن کر دیکھ رہے ہو تم بھی قیدی لوگوں کو۔ روشن دانوں سے کہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں‘‘ پہلی بات تو یہ کہ شعر میں قیدی سے مراد کوئی سیاسی قیدی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ کالم خالصتاً ادبی ہے۔ اصل میں محترم اقتدار جاوید کالم نثری نظم اور یوسف خالد نظر سے گزرا تو ہم پر واجب ہو گیا کہ کچھ خامہ فرسائی کروں۔ویسے بھی ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ ’’صلائے عام سے یاران نکتہ داں کے لیے، مقصد ان کا یہی ہے، اب کیا کریں کہ مقطع میں آپڑی سخن گسترانہ بات۔ نثری شاعری کا فیصلہ کافی پرانا ہے۔ مسئلہ تو ہم جیسے شاعروں کا ہے جو خواب بھی بے وزن نہیں دیکھتے۔ اگر آپ نظم کہہ سکتے ہیں تو کیوں شاعر کہلوانے کا شوق چرایا ہے۔ سب سے خوبصورت بات تو فیض احمد فیض نے کی تھی کہ بھائی جان نظم کے معنی یکجا کرنا ہوتا ہے۔ اور نثر کا مطلب بکھیرنا، تو دو متضاد عمل ایک ہی وقت میں کیسے سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آخر کیا مصیبت پڑی ہے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play