پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا پھر اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکستِ ذات کے اسباب دیکھنا اور اس میں ایک نازک اور طرحدار شعر دیکھئے کہ ’’تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب۔ تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا: جنوری آغاز ہو چکا اور موسم کی یخ بستگی ہاتھ پائوں کھولنے نہیں دیتی، خوابیدہ سی سفید صبحیں اور اداس سرمئی شامیں۔ لگتا ہے کہ کچھ روز ایسے ہی چلے گا۔ ہمیں تو 1997ء کا سال یاد آیا کہ دسمبر میں پورا مہینہ سورج نہ نکلا تب ہم کراچی گئے تو وہاں بھی سورج غائب ہو گیا۔ چلتے چلتے ہم آپ کو کچھ تنبیہہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ میرے عزیز جناب ڈاکٹر عبدالستار جو کہ کھاریاں کے ایک مقبول ڈاکٹر ہیں، دس دن تک گھر پر صاحب فراش رہے۔ پتہ چلا کہ ایک وائرس کرونا کی ہی ایک شکل میں آیاہوا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے کہ عام آدمی بیمار ہو جائے تو ہسپتال جا کر دن گزارتا ہے جبکہ ڈاکٹر اپنے گھر آ کر یہ وقت گزارتا ہے۔ وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ اس وائرس سے بچیں کہ جسم توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ خیر اس بات سے ایک اور بات ذہن میں آئی کہ ہماری حکمران بھی تو کمانے کے لیے پاکستان آ جاتے ہیں اور بیماری کو اپنے گھر یعنی لندن وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ باقی یہی ملک کی بات تو بے نتیجہ سے حالات چل رہے ہیں۔ کاغذات نامزدگی کے مسترد ہونے کے خلاف آج سے اپیلیں شروع۔ انشاء اللہ اس میں کافی وقت صرف ہو جائے گا۔ ایسے ہی داغ کا شعر دل پر آ گیا: جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اس سے ہمکلام کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں ہاں ہاں اس غزل کا مطلع بھی غیر متعلقہ نہیں کہ کچھ ایسے ہی ہو رہا ہے۔ یعنی ہم کو عبث بدنام کیا ہے:وہ شعر یوں ہے: کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں اب ذرا ادب کی بات ہو جائے کہ ایک سیمینار اور مشاعرے کا تذکرہ ضروری ہے کہ سخن گلستان خوشی کی شاعرہ پروین شاکر کی یاد میں یہ بڑی تقریب 29دسمبر بروز جمعہ 3بجے الحمرا میں منعقد ہوئی۔ اس ادبی سیمینار اور مشاعرہ کے روح و رواں تھے گوجرانوالہ کے عارف بھٹی۔ اس سے پیشتر ہر سال یہ سیمینار گوجرانوالہ میں منعقد ہوتا تھا۔ اب کے لاہور میں رونق لگائی گئی۔ خواتین کی تعداد اس میں غالب تھی۔ شاید یہ نسائی قسم کی صورت حال تھی سیمینار اور مشاعرہ کی صدارت تو ہمارے حصہ میں آئی اور مہمان خصوصی اعتبار ساجد تھے۔ کیپٹن شہزاد بھی موجود تھے۔ سب نے اپنے اپنے انداز میں خوشبو کی شاعرہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ خاص طور پر اعتبار ساجد نے اپنی یادیں سانجھی کیں کہ وہ کراچی میں اس کالج میں رہے جہاں پروین شاکر پڑھتی تھیں اور فیض احمد فیض وہاں پڑھاتے تھے۔ کیپٹن شہزاد نے بہت خوبصورت باتیں کیں کہ نسائی جذبوں کی پروین ملکہ تھیں۔وہ ایک حوالے سے عہد ساز شاعرہ بنتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعہ نے پوری اور اردو دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا پھر مہدی حسن کی آواز نے یہ خوشبو بکھیر دی تھی،یعنی کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی۔ کچھ یادیں ہم نے بھی سامعین کے ساتھ شیئر کیں۔ میری ملاقات اختر حسین جعفری کی موجودگی میں احمد ندیم قاسمی کی سالگرہ پر ہوئی۔ اختر حسین جعفری نے پروین شاکر کے لیے دیباچہ لکھا تھا اور میرے شعری مجموعے ’’تمہی ملتے تو اچھا تھا‘‘ کا۔ انہوں نے تیسرا دیباچہ نجیب احمد کے لیے لکھا تھا۔ان سے دوسری ملاقات محمد احمد صاحب کے گھر پر ہوئی۔ وہ سراپا شاعری تھیں۔پھر وہ جب بیورو کریسی میں آ گئیں۔ اب کب ہوا کہ جیسے پروین شاکر کے ساتھ کہ سی ایس ایس کے پرچے میں ان کی اپنی شاعری پر ہی سوال آ جاتے۔ ’’پوچھتے میں وہ کہ غالب کون ہے،کوئی بتلائو کہ ہم بتائیں کیا‘‘ انگریزی پڑھنے کے باعث ان کا کینوس بڑا ہو گیا تھا۔ یہی بات فراق، فراز اور پھر ہمارے فیض صاحب کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ شہزاد احمد ایک بات اور کہا کرتے تھے کہ پروین نے اپنی پہچان سے آگے نکل کر شاعری میں اسلوب میں ترمیم بھی کی۔ انکار کی شاعری ان کے ٹرینڈ سے سیٹ کرے، غزل بھی اس میں بالکل نئی دے: ان سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں وہ جو آئیں تو بہت سرد رویہ کر لیں آمد پہ اس کی عطرو چراغ و سبو نہ ہوں اتنا بھی بودو باس کو سادہ نہیں کیا اس تقریب میں شرکت کرنے والوں میں خوبصورت شاعر آفتاب خان بھی تھے۔ شوکت علی ناز سمیرا ساجد، عروج زیب، شگفتہ نعیم ہاشمی، غزل اور دوسری کئی شاعرات۔ منتظمین کے نام بھی ضرورت ہیں۔ میاں محمد فراز اکرم، رانا محمد اظہر، چودھری محمد زاہد نعیم اور میاں نذیر احمد اور یہ سارا اہتمام کاروان ادبی فورم اورلورز فورم کی طرف سے تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے میں نے ایک فی البدیہ قطعہ کہہ دیا جو بطور صدر محفل میں نے پیش کر دیا۔ میں سوچتا ہوں کیا کہوں پروین کے لیے خوشی سے بڑھ کے اور حوالہ نہیں کوئی موجود وہ نہیں ہے تو لگتا ہے اس طرح پھولوں کو ایسے دیکھنے والا کوئی نہیں
QOSHE - پروین شاکر سیمینار اور مشاعرہ - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پروین شاکر سیمینار اور مشاعرہ

10 0
04.01.2024




پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا پھر اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکستِ ذات کے اسباب دیکھنا اور اس میں ایک نازک اور طرحدار شعر دیکھئے کہ ’’تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب۔ تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا: جنوری آغاز ہو چکا اور موسم کی یخ بستگی ہاتھ پائوں کھولنے نہیں دیتی، خوابیدہ سی سفید صبحیں اور اداس سرمئی شامیں۔ لگتا ہے کہ کچھ روز ایسے ہی چلے گا۔ ہمیں تو 1997ء کا سال یاد آیا کہ دسمبر میں پورا مہینہ سورج نہ نکلا تب ہم کراچی گئے تو وہاں بھی سورج غائب ہو گیا۔ چلتے چلتے ہم آپ کو کچھ تنبیہہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ میرے عزیز جناب ڈاکٹر عبدالستار جو کہ کھاریاں کے ایک مقبول ڈاکٹر ہیں، دس دن تک گھر پر صاحب فراش رہے۔ پتہ چلا کہ ایک وائرس کرونا کی ہی ایک شکل میں آیاہوا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہے کہ عام آدمی بیمار ہو جائے تو ہسپتال جا کر دن گزارتا ہے جبکہ ڈاکٹر اپنے گھر آ کر یہ وقت گزارتا ہے۔ وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ اس وائرس سے بچیں کہ جسم توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ خیر اس بات سے ایک اور بات ذہن میں آئی کہ ہماری حکمران بھی تو........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play