گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر وہی آنکھوں کا پردا تھا میں گہری نیند سویا تھا مجھے بادل اٹھا لائے میں اک ندیا کنارے پر کسی واپسی کا سپنا تھا شاعر اپنے مشاہدات و تجربات ہی کو سخن آشنا کرتا ہے۔ ’’بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں۔ میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا‘‘ اور ’’اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے، مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا‘‘ اصل میں میں نے غالب کا ایک لاجواب شعر کئی بار پڑھا ’’حد سزائے کمال سخن ہے کیا کہیے، ستم لبا ئے متاع ہنر ہے کیا کہیے‘‘ کیا اچھوتا انداز ہے ’’دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا، یہاں پر نکالنے کی ضرورت نہیں وگرنہ پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ بس فیض کی طرح چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے۔ بس وہی کرو جو ہو رہا ہے اور جو ہوتا آیا ہے۔ یہ بھی فیض صاحب نے ہی کہا تھا کہ ہمارے حالات بس اسی طرح رہیں گے۔ ان کو ٹھیک کرنے والا خود خراب ہو جاتا ہے۔ چلیئے ہم سیدھی سادی بات لکھتے ہیں کہ عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی کا اجرا آج سے شروع ہو چکا ہے۔ پرندے اپنے آشیانے بدل رہے ہیں۔ موسم سرما میں گرمی آتی جا رہی ہے۔ اگر میرے حواس کام کرتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پی ڈی ایم میں ن لیگ کے علاوہ سب شامل باجہ ہیں اور باجہ ن لیگ کا نہیں۔ تاہم ن لیگ کو آزادی ملی ہے تو وہ نظر بھی آ رہی ہے مگر اس کی غلط فہمی ہو گی اگر وہ سمجھے کہ ہوا میں غیر مری رسیاں، پرندوں کو پکڑنے کے لیے نہیں ہیں۔ پنہاں تھا دمِ سخت قریب آشیان کے اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے کہنے کو تو بلاول کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں وہ سرپرائز دیں گے۔ سرفراز بگٹی بھی جیالے بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی میں بھی پیپلزپارٹی کا کافی سٹاک جمع ہے۔ مسئلہ تو مگر ووٹرز کا ہے اور بھی خاص طور پر پنجاب اور یہاں کس قسم کا کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا۔ کئی پروازیں استحکام پارٹی کی طرف جا رہی ہیں۔ لگتا ہے ایسے ہی ہے کہ ن لیگ کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا کہ ان کا ٹریک ریکارڈ لات مارنے کا ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں استحکام پارٹی سے کائونٹر کیا جائے تبھی تو استحکام والوں کو اور زیادہ مستحکم کیا جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ وہی ہنگ پارلیمنٹ۔ سراج الحق صاحب اپنی جگہ پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ انتخابات منصفانہ ہونے چاہئیں۔ ظاہر الیکشن میں صفائی بھی نظر آئے گی اور شفافیت بھی ہمیشہ کی طرح۔۔۔ یہ جیتنے والوں کے لیے انتہائی شفاف اور مخالفین کے لیے انتہائی دھاندلی زدہ ٹھہریں گے۔ اگر یہ الیکشن یک طرفہ ہوتے ہیں تو الگ بات ہے وگرنہ عوام کے اردارے کچھ اچھے نہیں ہیں۔ ان کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سب سے زیادہ غصہ شہباز شریف پر ہی ہے کہ ان کا اچھا برا کوئی وعدہ بھی انہوں نے ایفا نہیں کیا۔ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے سے لے کر پاکستان کو پیرس بنانے تک وہ بس انگلیاں بلکہ ایک انگلی ہی ہلاتے رہے ہیں۔ چھوٹے میاں ویسے ہی سبحان اللہ ہیں۔ نواز شریف وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ ’’محنت ہم کریں اور ووٹ کسی اور کو ڈل جائے۔ وہ 2018ء کے نتائج کو لے کر بیٹھے ہوئے اور مقصد ان کا وہی ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اب لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ آپ کو سیاست میں ڈالا بھی تو انہوں نے تھا۔ آپ نے بھی کس کس سے بے وفائی نہیں کی۔ مگر ان کو ماننے والے کہتے ہیں یہ ’’یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی‘ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اب فواد چودھری استحکام میں آئے گا یا اس کا استحکام ن لیگ میں ہو گا۔ پی ٹی آئی بھی اسی کی مان کر خراب ہوئی۔ ’’ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں، کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی۔ کچھ باتیں آنے والے وقت کا پتہ دے رہی ہیں مثلاً پٹرول 14روپے کم ہوا ہے عوام کا بوجھ کم کرنے کی ایک کوشش ہے کہ ہم آپ کے دشمن نہیں۔ وہی جو سودا نے کہا تھا: گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی باقی رہا نگران وزیر اعظم کا بیان کہ قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پہلے کچھ سمجھوتے کئے بھی گئے ہیں۔ اگر یہ جذبہ سچ مچ زندہ ہوتا تو شاید 9مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔ بس وہ ایک غلطی کہ جسے بلنڈر کہیں ’’عمر گزری ہے دربدر اپنی، ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے۔ ویسے یہ کوئی حادثہ بھی نہیں کہ اس کے شواہد موجود ہیں۔ یا پھر خوش فہمی۔ یا پھر غلط اندازے جب بقا کا معاملہ آ جائے تو پھر سچ مچ کوئی کسی چیز پر بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ یہ جو ڈر ہوتا ہے اسی کی حفاظت کرنے والے اس پر سودا کیسے کر سکتے ہیں۔ ایک بات شازیہ مری نے بڑی سادہ سی کہی ہے کہ آئین ہر شخص کے پاس ہونا چاہیے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق کا علم ہونا چاہئے مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ حقوق دینے والوں کے پاس بھی آئین ہو اور اس سے کبھی پڑھ کر ان کی یہ تربیت بھی کی جائے کہ آئین کو عزت دیں۔ ایک تازہ ترین شعر: خطا کا پتلا زمیں کو بن چکا مسکن ورنہ وہ تو یہاں امتحاں کو آیا تھا
QOSHE - ن لیگ اور استحکام - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ن لیگ اور استحکام

5 0
21.12.2023




گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر وہی آنکھوں کا پردا تھا میں گہری نیند سویا تھا مجھے بادل اٹھا لائے میں اک ندیا کنارے پر کسی واپسی کا سپنا تھا شاعر اپنے مشاہدات و تجربات ہی کو سخن آشنا کرتا ہے۔ ’’بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں۔ میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا‘‘ اور ’’اگرچہ سعد رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے، مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا‘‘ اصل میں میں نے غالب کا ایک لاجواب شعر کئی بار پڑھا ’’حد سزائے کمال سخن ہے کیا کہیے، ستم لبا ئے متاع ہنر ہے کیا کہیے‘‘ کیا اچھوتا انداز ہے ’’دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا، یہاں پر نکالنے کی ضرورت نہیں وگرنہ پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ بس فیض کی طرح چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے۔ بس وہی کرو جو ہو رہا ہے اور جو ہوتا آیا ہے۔ یہ بھی فیض صاحب نے ہی کہا تھا کہ ہمارے حالات بس اسی طرح رہیں گے۔ ان کو ٹھیک کرنے والا خود خراب ہو جاتا ہے۔ چلیئے ہم سیدھی سادی بات لکھتے ہیں کہ عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی کا اجرا آج سے شروع ہو چکا ہے۔ پرندے اپنے آشیانے بدل رہے ہیں۔ موسم سرما میں گرمی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play