اس کا چہرہ جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے ایسے آتا ہے خیالوں میں وہ جیسے رستے میں شجر آتا ہے اور کبھی کبھی سوچیں تو ایسے لگتا ہے ’’ہے پرندوں کی دعائوں کا اثر یہ جو پیڑوں پہ ثمر آتا ہے ہاں ہاں ایک اور شعر ہے زمانے سے وہ بڑھ کر سفاک جس کو جینے کا ہنر آتا ہے۔ آج دل میں خیال آیا کہ سیاست کو چھوڑ کر شعر کی بات کی جائے اور یہ جو شعر ہے یہ نہایت پراسرار عمل ہے میرا مطلب ہے تخلیق واقعتاً ایک وہبی سی شے ہے بالکل ایسا ہی عمل ہے جیسے سمندر سے بادل اٹھتے ہیں ،ہوائیں انہیں ہانک کر لاتی ہیں اور پیاسی اور مردہ زمین پر وہ برسائے جاتے ہیں اور پھر زندگی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔ چلیے اس بحث کو چھوڑتے ہیں مگر یہ تخلیق خون ہی سے پیدا ہوتی ہے وہ جو برائوننگ نے کہا تھا کہ شاعری چائے کا کپ نہیں یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔خیر یہ بناوٹ میںبھی سعی مانگتی ہے مگر استعداد وہی ہے بہرحال شعر وہ ہوتا ہے جو آپ کو چونکا دے۔مثلاً اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے۔اس کے آتے ہی سانس آنے لگی۔ وہ ہوا کی مثال آیا ہے ۔کہنے کا مطلب ہے کہ اس میں صنعتیں اور محاورے بھی آتے ہیں جو شعر کے حسن و جمال کو بڑھاتے ہیں آپ کی طبیعت اچھی ہے تو تازہ کاری بھی خود ہی آ جائے گی میں ابھی مقسط ندیم کی ایک غزل دیکھ رہا تھا دو شعر دیکھیے: کچھ لوگوں میں بات ہی ایسی ہوتی ہے کچھ لوگوں سے دھوکہ کھایا جا سکتا ہے مقسط غصہ آیا تو معلوم ہوا پینے والی چیز کو کھایا جا سکتا ہے یہی تو منیر نیازی کہتے تھے کہ ان کے ہمعصروں میں زیادہ تر ورسی فیکیشن ہے یعنی سٹیٹ منٹس کو شعروں میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ معلوم سے معلوم کی بات بعض اوقات تو یہ تخلیقی قوت اپنی انتہا پر پہنچی ہے تو عارفانہ بن جاتی ہے اس کی بہترین مثال غالب میں دیکھی جا سکتی ہے کہ کیسے اردگرد کو مشاہدہ بنا کر بیان کر دیا گیا ہیے مطلوب ہستی کا تذکرہ بھی نہیں: آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں یہ اہتمام ہے کہ خیال اور غیر مرئی تصور کو کیسے چھو کر دکھایا جائے آپ اسے تجسیم کہہ لیں یا کچھ اور مری شکل اتری تھی خاک پر مری خاک رکھی تھی چاک پر‘میں خیال دست ہنر میں تھا مجھے اس نے خود سے ملایا دیا‘مری آنکھ میں جو سما گیا سر آب نقش بنا گیا‘کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا میں نے شعر ثانی کو تو روا روی میں نقل کر دیا میں کوئی تنقیدی مضمون نہیں لکھ رہا بس اپنے احساسات کو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں مجھے یہ لکھنے کا خیال تنویر سپرا کا ایک شعر پڑھ کر آیا تنویر سپرا ایک مزدور شاعر تھا تو اس نے اپنے مشاہدے اور تجربے کو کیسے اچھوتے انداز میں شعر بنایا یہ خداداد ہے: آج بھی سپرا اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں آپ بس شعر کا مزہ لیں کہ تلازمہ کہاں سے اٹھایا گیا اور کیا بنایا گیا سپرا کا ایک معروف شعر بھی سامنے آگیا ۔اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے۔ دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے منیر نیازی کہتا ہے کہ میری طرح کوئی اپنے خون سے ہولی کھیل کے دیکھے۔ہائے ہائے عدیم یاد آئے: دور سے جان لیا میں نے کہ گھر تیرا ہے بیلیں لپٹی ہوئی دیکھیں جہاں دیوار کے ساتھ نیازی صاحب کا تذکرہ ہوا تو ان کی نظم کی آخری دو لائنیں یاد آ گئیں اور خاص بات یہ کہ مصرع کے آخر میں مجھے کی جگہ میں نے ان کی اجازت سے منیر لگا دیا اور پھر وہ شعر ایسے ہی مقبول ہوا: حسن تو بس دو طرح کا خوب لگتا ہے منیر آگ میں جلتا ہوا یا برف میں سویا ہوا تخلیق کی طاقت ہو تو بعض اوقات غیر شاعرانہ لفظ بھی حسن بن جاتا ہے یہ بھی دیکھ لیجیے: اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے کیسے کیسے شعر میرے اردگرد منڈلانے لگے ہیں شعروں کا ہجوم ہے شعرا بھی کیا کیا اہتمام کرتے ہیں یا نظر ایسے آتا ہے شعر تو اترتا ہے شکیب نے کہا تھا: پھر سے شاید وہ مجھے پھولوں کا تحفہ بھیج دے تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر میں اپنے کالم کو خالد احمد کے اشعار سے ختم کرتا ہوں: پھر وہی مہرباں ہوا آئی اے مری بے چراغ تنہائی بین کرنے لگیں نہ سناٹے پاسدران گوش و گویائی
QOSHE - ایک شعری اور تخلیقی کالم - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایک شعری اور تخلیقی کالم

9 0
18.12.2023




اس کا چہرہ جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے ایسے آتا ہے خیالوں میں وہ جیسے رستے میں شجر آتا ہے اور کبھی کبھی سوچیں تو ایسے لگتا ہے ’’ہے پرندوں کی دعائوں کا اثر یہ جو پیڑوں پہ ثمر آتا ہے ہاں ہاں ایک اور شعر ہے زمانے سے وہ بڑھ کر سفاک جس کو جینے کا ہنر آتا ہے۔ آج دل میں خیال آیا کہ سیاست کو چھوڑ کر شعر کی بات کی جائے اور یہ جو شعر ہے یہ نہایت پراسرار عمل ہے میرا مطلب ہے تخلیق واقعتاً ایک وہبی سی شے ہے بالکل ایسا ہی عمل ہے جیسے سمندر سے بادل اٹھتے ہیں ،ہوائیں انہیں ہانک کر لاتی ہیں اور پیاسی اور مردہ زمین پر وہ برسائے جاتے ہیں اور پھر زندگی کے آثار پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔ چلیے اس بحث کو چھوڑتے ہیں مگر یہ تخلیق خون ہی سے پیدا ہوتی ہے وہ جو برائوننگ نے کہا تھا کہ شاعری چائے کا کپ نہیں یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔خیر یہ بناوٹ میںبھی سعی مانگتی ہے مگر استعداد وہی ہے بہرحال شعر وہ ہوتا ہے جو آپ کو چونکا دے۔مثلاً اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play