کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا خیر اب تو جمال یار کی بات بھی نہیں کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، اور پھر ویسے بھی غم یار گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ وہی نہ اگر سر پھوڑنا ہی ہے تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔ بہرحال الیکشن کے انتظامات مکمل ہیں، ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور پروگرام چل رہا ہے وہ بھی غلط نہیں اس کی غماضی وزیر اعظم کا بیان کر رہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ 300جنگیں کرنے کو بھی تیار ہیں ظاہر ہے خاموش احتجاج والی بات نہیں۔بھٹو بھی یاد آئے کہ اس طرح کے بیان دیا کرتے تھے ایسا ہی جذبہ ہونا چاہیے۔ الیکشن والا معاملہ ویسے ہے بڑا دلچسپ ہے کہ ڈی آر اور آر او کی ٹریننگ روک دی گئی ہے پھر بھی معاملات سنوارنے کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ مگر یہاں حرکت میں بھی کوئی تیزی نہیں اور پھر سفر نہیں معلوم کس طرف ہے۔ عجیب صورت حال ہے قید میں اداسی ہے اور آزادی میں مایوسی ہے۔ مطلع ہرگز نہیں کھل رہا سراج الحق فرما رہے ہیں کہ نورا کشتی کر کے اقتدار کے مزے لینے والے بے نقاب ہو چکے ہیں اگر اس بات کو طرح دی جائے تو وہ بھی سامنے آتے ہیں جس پر داغ کا شعر یاد آتا ہے: خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اب تو کوئی بسنت کی سی صورت حال ہے کہ کون کون سی پتنگ اڑا رہا ہے اور اوپر سے ہوا بھی تیز ہے کس کی پتنگ کٹے گی اور کس کی کاٹے گی کچھ معلوم نہیں۔ کسی ملک کے لئے سب سے بڑا مسئلہ تو وہاں کے حفظ و امان کا ہوتا ہے۔خارجی اور داخلی دونوں سطح پر۔تو صورتحال آپ کے سامنے ہے۔یقیناً وقت کا تقاضا ہے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے اور آئین کی پاسداری کرے ایسا کرنے سے ہی معاملات درست ہو سکتے ہیں مگر اتنا کچھ غلط ہو چکا ہے کہ معکوس عمل ذرا مشکل ضرور لگتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ا س کے ساتھ جڑا ہوا معاملہ انصاف کا ہے بلکہ انصاف تو کلیدی اور سیاسی معاملہ ہے سوچنے کی بات تو یہی ہے کہ مشین درست ہو گی توہ اپنا عمل درست انداز میں کرے گی۔ خرابی بھی اس وقت پیدا ہوئی جب اچھے خاصے اداروں کو سیاست میں استعمال کرنے کا رواج ہوا یا یوں کہہ لیں کہ اداروں کو اپنے استعمال میں لانے کا رواج پڑا۔ پھر جو طاقتور تھا جو الجھے ہوئے معاملات ہیں یہ جان بوجھ کر الجھائے گئے ہیں ایک لمحے کے لئے صاحبان اقتدار کو چھوڑ کر ہم عام آدمی کی بات کرتے ہیں۔ مثلاً آپ خالص دودھ حاصل نہیں کر سکتے جانور تو خالص دیتا ہے مگر ہم پانی ملاتے ہیں اور اب تو بھینس کو بھی زحمت نہیں دیتے کیمیکل سے کام چلاتے ہیں یہ تو ایک مثال ہے خالص اشیاء ہیں کہاں ؟ آپ پھل سبزی والے کو دیکھ لیں گھر آ کر دیکھتے ہیں کہ آدھا پھل تو خراب نکل آیا بعض اوقات تو وہ شاپر ہی بدل دیتے ہیں ہزار مثالیں ہیں کہنے کا مطلب یہ تو وہ بددیانتی ہے جو عام آدمی کر رہا ہے اور پھر حالات کی شکایت بھی کرتا ہے حالات ساری بے برکتی میں ہم بھی حصہ دار ہیں۔ ہم کبھی شرعی عدالتوں کا سنتے ہوتے تھے سنا ہے وہ روبہ عمل بھی ہیں مگر ان کی بات نگارخانے میں طوطی کی آواز بھی نہیں مثلا شرعی عدالت سود ختم کرنے کی سفارش ہی کر سکتی ہے اس کو سفارش ہی نہیں چلتی پھر وہی بات کرنا پڑتی ہے کہ اعما لکم عما للھم اور نہ دوا کارگر نہ دعا۔ دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں ان دنوں تو عدالتیں بھی مصروف ہیں مگر سائلین کہتے ہیں کہ وہ رل گئے کہ ہزاروں مقدمات پڑے ہوئے ہیں جو بھی آتا ہے وہ پرانوں کو مات دیتا محسوس ہوتا ہے۔جس کو انصاف مل رہا ہے وہ بھی حیرت زدہ ہے کہ اچانک سارے جرموں کا بوجھ اتار کر ایسا پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ویسے دلچسپ بات ہے جن کے پاس مینڈیٹ نہیں وہ ایسے فیصلے کر رہے ہیں یا کرنے جا رہے ہیں کہ اصل وارثوں کو پسینہ آ رہا ہے مگر وہ بھی تو غلطی پر ہیں وارث کوئی اور ہے اور پھر ان سب سے اوپر تو وارث حقیقی ہے ہر چیز کو ادھر ہی لوٹ جانا ہے۔ یقیناً مایوسی کفر ہے مگر لوگ سچ مچ انصاف سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔وہی پرانا محاورہ کہ موم کی ناک ویسے تو یہ ناک بھی کب کی کٹ چکی ہے ہم تو اس بات پر حیران تھے کہ کسی نہ کسی کا عدالت میں حال پوچھ لیا تھا مگر اب بھی کوئی اجنبیت نہیں سزائیں ایسے معاف ہو رہی ہے ہیں جیسے بینک قرض معاف کرتے ہیں میرا طلب حکومتی لوگوں کے واقفان حال تو بتاتے ہیں کہ نظام وہی چلا رہے ہیں جنہوں نے آنا ہے ان کے پاس اختیارات وغیرہ بھی ہیں مگر ان کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ ووٹ لے کر ہی وہ آئیں گے دوسری بات یہ کہ ووٹ صندوقچیوں میں کیسے جائیں بہت سے خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں ویسے لوگوں کے دلوںکا حال اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کدھر کا رخ اختیار کریں یہ لوگ مسخروں کو پسند کر لیتے ہیں وہی کہ خلقت شہر تو تماشہ مانگتی ہے۔جو بھی ہے سب لوگ ایک حصار بے درو دیوار میں مقید ہیں تدابیریں سوچی جا رہی ہیں کیا اچھا شعر رئیس فروغ کا ہے: اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
QOSHE - خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے

9 0
17.12.2023




کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا خیر اب تو جمال یار کی بات بھی نہیں کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، اور پھر ویسے بھی غم یار گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ وہی نہ اگر سر پھوڑنا ہی ہے تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو۔ بہرحال الیکشن کے انتظامات مکمل ہیں، ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک اور پروگرام چل رہا ہے وہ بھی غلط نہیں اس کی غماضی وزیر اعظم کا بیان کر رہا ہے کہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ 300جنگیں کرنے کو بھی تیار ہیں ظاہر ہے خاموش احتجاج والی بات نہیں۔بھٹو بھی یاد آئے کہ اس طرح کے بیان دیا کرتے تھے ایسا ہی جذبہ ہونا چاہیے۔ الیکشن والا معاملہ ویسے ہے بڑا دلچسپ ہے کہ ڈی آر اور آر او کی ٹریننگ روک دی گئی ہے پھر بھی معاملات سنوارنے کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ مگر یہاں حرکت میں بھی کوئی تیزی نہیں اور پھر سفر نہیں معلوم کس طرف ہے۔ عجیب صورت حال ہے قید میں اداسی ہے اور آزادی میں مایوسی ہے۔ مطلع ہرگز نہیں کھل رہا سراج........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play